تمہید:
صلح
کروانا ہمارے پیارے آقا، مکی مدنی مصطفى صلى الله عليه وسلم کی سنت ہے، مسلمانوں میں
لڑائی جھگڑا کروا کران کی آپس میں پھوٹ ڈالوانا اور نفرتیں بڑھانا یہ شیطان کے اہم
اہداف میں سے ہے، بسا اوقات شیطان مسلمانوں کے درمیان پھوٹ ڈلوا کر بغض وحسد کی ایسی
دیوار کھڑی کر دیتا ہے، جسے صلح کے ذریعے مسمار کرنا انتہائی مشکل ہے، صلح کروانے
والے کو چاہئے کہ پہلے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں کامیابی کی دعا کرے، پھر ان دونوں
کو الگ الگ بٹھا کر ان کی شکایات سنے اور اہم نکات لکھ لے، صرف ایک فریق کی بات سن
کر فیصلہ نہ کردے، کیونکہ ہوسکتا ہے وہ غلطی پر ہو اور اس سے دوسرے کی حق تلفی کا
قوی امکان ہے، فریقین کی بات سننے کے بعد انھیں صلح پر آمادہ کرے اور سمجھائے کہ
ہمارے پیارے آقا صلى الله عليه وسلم کی زندگی ہمارے لئے بہترین نمونہ ہے، آپ صلى
الله عليه وسلم نہ ایذا دینے والوں، نہ ستانے والوں، بلکہ اپنے جانی دشمنوں کو بھی
معاف فرمایا ہے۔
قرآن
کریم میں صلح کروانے کاحکم:
چنانچہ
پارہ 26 سورةاالحجرات کی آیت نمبر 9 میں خدائے رحمن عزوجل کافرمان عالیشان ہے:
وَ اِنْ طَآىِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا
بَيْنَهُمَا١ۚ ترجمہ
کنزالعرفان:"اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کراؤ۔"
اس آیت
کریم کاشانِ نزول بیان کرتے ہوئے صدر الافاضل حضرت علامہ مولاناسیّد محمدنعيم الدين
مراد آبادی عليہ رحمۃ الله الھادى خزائن العرفان میں فرماتے ہیں:"نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم دراز گوش پر سوار تشریف لے جاتے تھے، انصار کی مجلس پر گزر ہوا،
وہاں پر تھوڑا سا توقف فرمایا، اس جگہ پر دراز گوش نے پیشاب کیا تو ابن ابی نے ناک
بند کر لی، حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ
وسلم کے دراز گوش کا پیشاب تیرے مشک سے بہتر خوشبو رکھتا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم
تشریف لے گئے، لیکن ان دونوں میں بات بڑھ گئی اور ان دونوں کی قومیں آپس میں لڑ گئیں
اور ہاتھا پائی تک نوبت آئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے اور ان میں
صلح کرا دی، تو یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔ (الترغیب والترھيب،کتاب الادب وغیرہ،
الترغیب فی الاصلاح بين الناس3/321، حدیث9، دارالکتب العلمیہ بيروت )
حدیث
مبارک میں صلح کروانے کاحکم:
چنانچہ
حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرورِ ذیشان صلی اللہ علیہ وسلم کا
فرمانِ مغفرت نشان ہے:"جو شخص لوگوں کے درمیان صلح کرائے، اللہ عزوجل اس کا
معاملہ درست فرما دے گا اور اسے ہر کلمہ بولنے پر ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب
عطافرمائے گا اور جب وہ لو ٹے گاتوا پنے پچھلے گناہوں سے مغفرت یافتہ ہوکر لوٹے
گا۔"
کونسی
صلح کروانا جائز نہیں؟
حضور
صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"مسلمانوں کے درمیان صلح کروانا جائز ہے،
مگر وہ صلح جائز نہیں، جو حلال کو حرام اور حرام کوحلال کر دے۔" ( سنن ابی
داؤد، جلد3، ص نمبر 425، حدیث 3594 )
ان آیات
اور روایات سے صلح کروا نے کی اہمیت اور اس کے فضائل و برکات معلوم ہوئے، لہذا جب
کبھی مسلمانوں میں ناراضی ہوجائے توان کے درمیان صلح کروا کر یہ فضائل و برکات حاصل
کرنے چاہئیں، بعض اوقات شیطان یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ انہوں نے صلح پر آماده ہوناہی
نہیں، لہذا انہیں سمجھانا بیکار ہے۔
یاد
رکھئے!مسلمانوں کو سمجھانابیکار نہیں، بلکہ مفید ہے جیساکہ خدائے رحمن عزوجل کا
فرمانِ عالیشان ہے: وَّ ذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ
الْمُؤْمِنِيْنَ۵۵
(پاره
29، سورة الذريت، آیت55)