ہم اس
زندگی میں کئی طرح کے لوگوں سے میل جول رکھتے ہیں اور روزانہ بہت سے افراد سے سے ملتے
ہیں، ہمارا پیارا دینِ اسلام جس طرح ہمیں آپس میں پیارو محبت سے رہنے اور یکجہتی کی
فضا قائم رکھنے کا ذھن دیتا ہے، اسی طرح جب دو مسلمانوں میں آپس میں رنجشیں ہو جائیں
اور دلوں میں دوریاں پیدا ہو جائیں تو ان کے درمیان صلح کروانے کا بھی درس دیتا
ہے، قرآن و حدیث میں کئی مقامات پر صلح و صفائی کروانے کے فضائل وارد ہوئے ہیں، آئیے
قرآن سے اس عظیم کام کی اہمیت پوچھتے ہیں، چنانچہ پارہ 26، سورہ حجرات کی آیت نمبر
10 میں ارشادِ ربانی ہے۔
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَ اَخَوَيْكُمْ ترجمہ
کنزالایمان:"مسلمان، مسلمان بھائی ہیں تو اپنے بھائیوں میں صلح کرو ۔"
تفاسیر
کی کتابوں میں اس آیت مقدسہ کی تفسر میں کچھ یوں آتا ہے:مسلمان دینی تعلق اور
اسلامی رشتے کے ساتھ مربوط ہیں، جو دنیاوی رشتوں سے بھی افضل ہے، لہذا اگر دو بھائیوں
جھگڑا ہو جائے تو ان میں صلح کروا دو۔"(تفسير صراط الجنان، ج 9، پارہ 26،
سورہ حجرات، ص422 بتغير قليل)
اس آیت
سے معلوم ہوا کہ صلح کروا نا کتنا عظیم الشان کام ہے کہ اس کا حکم ربّ کریم جل و
علا نے بھی دیا ہے، لہذا ہمیں بھی دو مسلمانوں میں صلح کروا کر اس فرمانِ الہی کو
بجا لانا چاہئے، اسی طرح کئی احادیث بھی صلح کروانے کے فضائل سے بھری ہوئی ہیں،
ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جگہ بہ جگہ اس حسین طرزِ زندگی کو اپنانے کی
ترغیب دلائی ہے، چنانچہ آخری نبی مکی مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشا دفرمایا:"کیا
میں تمہیں ایسا کام نہ بتاؤں، جو درجے میں روزے، نماز اور زکوة سے بھی افضل ہے؟
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیوں نہیں،
فرمایا:آپس میں صلح کروا دینا۔"(ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی اصلاح ذات البین
،4/365،ح 4919)
اس حدیث
سے بھی معلوم ہوا کہ صلح کروانا تو ایسا مبارک کام ہے ،جو روزہ، نماز اور زکوة سے
بھی افضل ہے، بلکہ صلح کروانا تو ایسا پیارا عمل ہے، جس کے کرنے والے کے لئے مغفرت
کی بھی بشارت ہے، جیسا کہ الله عزوجل کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان
ہے:"جو شخص لوگوں کے درمیان صلح کرائے گا، اللہ عزوجل اس کا معاملہ درست
فرمائے گا اور ہر کلمہ بولنے پر ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب عطا فرمائے گا اور جب
وہ لوٹے گا تو اپنے پچھلے گناہوں سے مغفرت یافتہ ہو کر لوٹے گا۔"(الترغیب والتر
ہیب، کتاب الادب ، باب اصلاح بین الناس،
جلد 3/321)
سبحان
الله ! ایسا کام جس سے ربّ عزوجل ہو،٭ایسا کام جس کا حکم ہمارا ربّ دے،٭ ایسا کام
جس کو کرنے پر مغفرت کی نوید ہے،٭ایسا کام جو متقی لوگوں کا طریقہ ہے، ٭ ایسا کام
جس کے لئے جھوٹ بولنے کی بھی اجازت ہو، ٭ایسا کام جس کے کرنے سے پرامن معاشرہ بنتا
ہے اور سب سے بڑی بات کہ جو کام ہمارے آخری نبی صلی اللہ علہ وسلم کی بھی سنت ہو،
اس کو کیوں نہ بجا لائیں، کیوں نہ اس کام
کو کرکے ان فضا ئل کو حاصل کیا جائے۔
لیکن یادر
ہے! صلح کروانا وہ ہی جائز ہے، جس کا شریعت کی طرف حکم ہے، ایسی صلح جس میں حرام
کو حلال یا حلال کو حرام کیا گیا ہو، وہ جائز نہیں، چنانچہ سيّد المرسلین، خاتم
النبين صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا:"مسلمانوں کے درمیان صلح کروانا
جائز ہے، مگر وہ صلح ( جائز نہیں ) جو حرام کو حلال کردے یا حلال کو حرام کر دے۔"(
ابوداؤد، جلد 125/3، الحدیث 3594 ) اس سے معلوم ہوا کہ اس طرح کی صلح جائز نہیں، مثال
کے طور پر اس طرح صلح کروانا کہ شوہر اپنی دوسری بیوی کے پاس نہیں جائے گا وغیره، یہ
جائز نہیں۔"
ایک
مسلمان کو چاہئے کہ اگر مسلمانوں میں باہم لڑائی جھگڑے کی صورت پیدا ہو تو ان میں
صلح کروا کر ان عظیم فضا ئل کو حاصل کرے اور ایک پر امن معاشره بنانے میں حصّہ دار
بنے۔
الله
عزوجل ہمیں بھی اس کی توفیق دے۔
مجھے
تو صلح کرانے کی کر عطا توفیق
محبتوں
سے سبھی کو میں دوں ملا یا ربّ !!