اللہ عزوجل نے لوگوں کو جہالت کے اندھیروں سے نکالنے کے لیے آقائے
دوعالم نور مجسم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو
محبوب فرمایا پھر جن خوش نصیب افراد نے آپ صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بحالت ایمان صحبت پائی اور بحالتِ ایمان وفات پائی ، صحابی
کہلا ئے ۔
رب
کریم نے ان نفوس قدسیہ کو بہت اعلیٰ مقام
عطا فرمایا کیونکہ وہ اشخاص کہ جنہیں براہ
راست آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی
صحبت پانے کا شرف حاصل تھا۔
سب
سے افضل صحابہ کرام میں خلفائے راشدین پھر
بقیہ عشر ہ مبشرہ ، حضرت حسنین کریمین، و اہل بدر و احد، بیعت رضون والے، بیعت عقبہ
والے اور سابقین یعنی وہ صحابہ جنہوں نے دونوں قبلوں کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی
ہے یہ(فضائل صحابہ و اہل بیت صحابہ)
قرآن
کریم میں اللہ عزوجل ان نفوس
قدسیہ کی جا بجا شان و عظمت بیان فرمائی چنانچہ ارشاد فرمایا:
رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ
لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ
الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ، تَرجَمۂ کنز
الایمان:اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لیے تیار کر رکھے ہیں باغ جن
کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے۔(التوبہ : 100)
اس
آیت مبارکہ میں صحابہ کرام رضی اللہ
تعالیٰ علیہم اجمعین کی شان بیان فرمائی گئی ہے اور بالخصوص وہ صحابہ کرام جنہوں نے اس وقت اسلام کی دعوت
قبول فرمائی جب کہ اس وقت اسلام کی دعوت کو قبول کرنا بےشمار مصائب و تکالیف کو
دعوت دینا تھا، اخلاص واستقلال کے ان پیکروں نے محض رضائے الہی کے لیے اپنے گھر
بار چھوڑنے اپنی خونی رشتوں کو فراموش کیا اوردین کی سربلندی کی خاطر اپنی جان کی بازی لگادی، رب
کریم عزوجل نے ان اشخاص
کو یہ اعزاز عطا فرمایا کہ ان سے راضی ہونے کا اعلان فرمادیا، انہیں جنتی ہونے کی
خوشخبری دی اور اسے بہت بڑی کامیابی قرار دیا۔
ایک
اور آیتِ مبارکہ میں ارشاد ہوتا ہے۔ قَالُوْا یٰمُوْسٰۤى اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَهَاۤ اَبَدًا۔ تَرجَمۂ کنز الایمان: بولے اے موسیٰ ہم تو وہاں کبھی نہ جائیں گے۔(سورہ مائدہ
آیت ۲۴)
صراط الجنان جلد ۲ میں اس آیت کے تحت لکھا ہے کہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جہاد سے صاف
انکار کردیا تھا ۔
علمائے مفسرین اس آیت کے تحت ایک نفیس بیان کرتے ہیں کہ
اس سے معلوم ہوا رسول
اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ والوں
سے کہیں افضل ہیں کیونکہ ان حضرات نے کسی
سخت موقع پر بھی حضور اقدس صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم کا ساتھ نہ چھوڑا بلکہ اپنا سب کچھ حضور اکرم صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے نام پرقر بان کردیا جیسے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تمام نبیوں کے سردار ہیں اسی طرح آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کے اصحاب بھی تمام نبیوں کے اصحاب کے سردار ہیں۔
سبحان اللہ عزوجل جس طرح قر آن کریم میں اصحاب رسول کی عظمت و توقیرکا بیان کیا گیا اس طرح
احادیث مبارکہ میں بھی ان کی تعریف و فضائل بیان کیے گئے۔
حضرت ابوسعید خدری رضی
اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول
اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا میرے صحابہ کو برا نہ کہو کیونکہ اگر تم میں
کوئی احد (پہاڑ) بھر سونا خیرات کرے تو ان کے ایک مد( ایک پیمانہ ہے) نہ پہنچے نہ آدھے
کو۔(مشکوة المصابیح حدیث 5747)
مراة المناجیع میں اس حدیث کے تحت فرمایا گیا کہ یہاں صحابہ
کرام کے قربِ الہی کا ذکر ہے،(مراة المناجیع ص 282)
حضرت عمر ابن خطاب رضی
اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں تو تم ان میں سے جس کی پیروی
کرو گے ہدایت پا جاؤ گے
اس حدیث مبارکہ میں صحابہ کی شان بیان کی گئی کہ ستاروں کی مانند قر ار دیا گیا کہ امت
کے لیے صحابہ کر ام کی اقتدا میں ابتدا یعنی ہدایت ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس نے ارشاد فرماتے ہیں کہ سرکار دوعالم صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب رضی
اللہ عنہم اجمعین احسن راستے اور افضل ہدایت پر ہیں یہ علم کے معدن ، ایمان کا خزانہ ہیں ، اور
رحمن کے لشکر ہیں۔
حضرت عبداللہ بن مسعو دفرماتے ہیں طریقہ اختیار کرنے والوں کو چاہیے کہ
وہ گزرے ہوؤں کا طریقہ اختیار کریں، گزرے ہوئے حضور اقدس صلی
اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کے اصحاب ہیں ان کے دل امت میں سب سے
زیادہ پاک ، علم میں سب سے گہرے، تکلف میں سب سے کم ہیں اور وہ ایسے حضرات ہیں جنہیں
اللہ رب العزت نے اپنے حبیب صلی اللہ
تعالیٰ لیہ وسلم کی صحبت اور ان کے دین کی اشاعت کے لیے
چن لیا۔
یہی وہ حضرات ہیں جن کے ذریعے ہم تک دین پہنچا اللہ
کریم سے دعا ہے کہ وہ ہمیں صحابہ کے طریقے پر چلنے کی توفیق
عطا فرمائے اور ہمیں صحابہ کے طریقے پر
چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں صحابہ سے سچا عشق و محبت نصیب فرمائے اٰمِیْن بِجَاہِ
النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں