حقیقی حاکم
صرف ذاتِ باری تعالیٰ ہے مگر نظامِ کائنات کو مُنظَّم کرنے کے لیے اللہ تعالٰی نے
تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء و رُسل مبعُوث فرماۓ۔بلآخر جب بابِ نبوت بند ہوگیا تو یہ عظیم فریضہ
قرآنی اُصولوں کی روشنی میں"اُولُو الاَمر" کے حوالے کیا. کسی بھی معاشرہ
میں معاملات زندگی کو سہی سمت دینے کے لیے ایک حاکم،امیر یا خلیفہ کا ہونا
ضروری ہے خواہ شہری زندگی ہو یا دیہاتی بغیر سرپرست کے کسی بھی جگہ کا نظام درست
نہیں چل سکتا جب تک رعایا اس کی معاون نہ ہوں اگر غور کیا جائے تو یہ معلوم ہوگا
کہ کسی بھی معاشرے کے اندر بدامنی کے پھیلنے ایک بڑا سبب حاکم اور محکوم کا اپنے حقوق اور فرائض سے دستبردار ہونا ہے کیونکہ جب کوئی اپنے حقوق اور اپنے فرائض سے نا آشنا ہوتا ہے تو وہ اپنے اپنے فیصلے یا اقدامات درست نہیں
کر پاتا
[یہ تحریر چار
بنیادی نکات پر مشتمل ہے ]
اسلام
میں تصور حاکمیت :حقوق حکمران قرآن
کی روشنی میں ۔حقوقِ حکمران حدیث کی روشنی میں ۔کیا ہر حاکم کی طاعت ضروری ہے؟۔اسلام
میں تصور حاکمیت ۔اسلامی نقطہ نظر سے تصور حاکمیت کا جائزہ لیا جائے تو
ہمارے سامنے حسب ذیل آیات درج ہیں۔
هُوَ اللّٰهُ الَّذِیْ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۚ-عٰلِمُ
الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِۚ-هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ. (سورۃ الحشر آیت 22)(ترجمۂ کنز العرفان) وہی اللہ ہے
جس کے سوا کوئی معبود نہیں ، ہر غیب اور ظاہر کا جاننے والاہے، وہی نہایت مہربان،
بہت رحمت والاہے۔
قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ(١)مَلِكِ
النَّاسِ(٢)اِلٰهِ النَّاسِ(٣)(سورۃ
الناس آیت ١،٣) [ترجمۂ کنز الایمان] تم کہو میں اس کی پناہ میں آیا جو سب لوگوں
کا رب۔سب لوگوں کا بادشاہ۔سب لوگوں کا خدا
حقوق حکمران
قرآن کی روشنی میں:
اس نظام میں
مسلم اور غیر مسلم دونوں شامل ہیں ان کے بنیادی حقوق کا پاسداری ریاست کا فرض ہے. [قرآنی
آیات]
(1)
جان کا تحفظ وَ
لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّؕ-وَ مَنْ قُتِلَ
مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّهٖ سُلْطٰنًا فَلَا یُسْرِفْ فِّی
الْقَتْلِؕ-اِنَّهٗ كَانَ مَنْصُوْرًا.
(ترجمہ کنز الایمان) اور کوئی جان جس کی حرمت اللہ نے رکھی ہے ناحق
نہ مارو اور جو ناحق مارا جائے تو بیشک ہم نے اس کے وارث کو قابو دیا ہے تو وہ قتل
میں حد سے نہ بڑھے ضرور اس کی مدد ہونی ہے. (سورۃ بنی اسرائیل 33)
(2) حقوق ملکیت
کا تحفظ
وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ
بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِهَاۤ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِیْقًا
مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
(ترجمۂ کنز
الایمان)
اور آپس میں ایک
دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اور نہ حاکموں کے پاس ان کا مقدمہ اس لئے پہنچاؤ کہ
لوگوں کا کچھ مال ناجائز طور پر کھالو جان بوجھ کر۔. (سورۃ البقرہ
188)
(3)
عزت کا تحفظ:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنُوْا
خَیْرًا مِّنْهُمْ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُنَّ خَیْرًا
مِّنْهُنَّۚ-وَ لَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِؕ-بِئْسَ
الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِۚ-وَ مَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓىٕكَ
هُمُ الظّٰلِمُوْنَ (ترجمۂ کنز الایمان) اے ایمان والو نہ مرد مردوں سے ہنسیں عجب نہیں
کہ وہ ان ہنسنے والوں سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے دُور نہیں کہ وہ ان
ہنسنے والیوں سے بہتر ہوں اور آپس میں طعنہ نہ کرو اور ایک دوسرے کے بُرے نام نہ
رکھو کیا ہی بُرا نام ہے مسلمان ہوکر فاسق کہلانا اور جو توبہ نہ کریں تو وہی ظالم
ہیں (سورۃ الحجرت 49)
(4)
نجی زندگی کا تحفظ
فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فِیْهَاۤ اَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوْهَا حَتّٰى یُؤْذَنَ
لَكُمْۚ-وَ اِنْ قِیْلَ لَكُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا هُوَ اَزْكٰى لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ
بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ (ترجمۂ کنز الایمان) پھر اگر ان میں کسی کو نہ پاؤ جب بھی بے ما لکوں
کی اجازت کے ان میں نہ جاؤ اور اگر تم سے کہا جائے وآپس جاؤ تو وآپس ہو یہ
تمہارے لیے بہت ستھرا ہے اللہ تمہارے کاموں کو جانتا ہے (سورۃ
النور 28)
(5)
بغیر ثبوت کے کارروائی نہ کی جائے یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا
اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَهَالَةٍ
فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ (ترجمۂ کنز الایمان) اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی
خبر لائے تو تحقیق کرلو کہ کہیں کسی قوم کو بے جانے ایذا نہ دے بیٹھو پھر اپنے کئے پر پچھتاتے رہ جاؤ. (سورۃ یالحجرت 6)
(6)
ضمیر و اعتماد وَ
لَوْ شَآءَ رَبُّكَ لَاٰمَنَ مَنْ فِی الْاَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِیْعًاؕ-اَفَاَنْتَ
تُكْرِهُ النَّاسَ حَتّٰى یَكُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ (ترجمہ: کنزالایمان) اور اگر تمہارا رب چاہتا زمین میں
جتنے ہیں سب کے سب ایمان لے آتے تو کیا تم لوگوں کو زبردستی کرو گے یہاں تک کہ
مسلمان ہوجائیں. (سورۃ یونس:99)
(7)
مزہبی دل آزاری سے تحفظ کا حق قُلْ اَغَیْرَ اللّٰهِ اَبْغِیْ رَبًّا
وَّ هُوَ رَبُّ كُلِّ شَیْءٍؕ-وَ لَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ اِلَّا عَلَیْهَاۚ-وَ
لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰىۚ-ثُمَّ اِلٰى رَبِّكُمْ مَّرْجِعُكُمْ فَیُنَبِّئُكُمْ
بِمَا كُنْتُمْ فِیْهِ تَخْتَلِفُوْنَ(ترجمہ:
کنزالایمان) تم فرماؤ کیا اللہ کے سوا اور
رب چاہوں حالانکہ وہ ہر چیز کا رب ہے اور جو کوئی کچھ کمائے وہ اسی کے ذمہ ہے اور
کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گی پھر تمہیں اپنے رب کی طرف پھرنا ہے وہ تمہیں بتادے گا جس میں اختلاف کرتے تھے (سورۃ
الانعام:164)
حقوقِ
حاکم حدیث کی روشنی میں: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ
عَنْ الْجَعْدِ عَنْ أَبِي رَجَاءٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ يَرْوِيهِ قَالَ قَالَ
النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ رَأَى مِنْ أَمِيرِهِ شَيْئًا
فَكَرِهَهُ فَلْيَصْبِرْ فَإِنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ يُفَارِقُ الْجَمَاعَةَ شِبْرًا
فَيَمُوتُ إِلَّا مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّة.(صحيح بخاری شریف ، كِتَابُ الأَحْكَامِ، بَابُ
السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ لِلْإِمَامِ مَا لَمْ تَكُنْ مَعْصِيَةً،الخ 7142)
ترجمہ : ہم سے
مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا،
ان سے ابوالتیاح نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سنو اور اطاعت کرو، خواہ تم پر کسی ایسے حبشی غلام
کو ہی عامل بنایا جائے جس کا سرمنقیٰ کی طرح چھوٹا ہو۔
تشریح : یعنی
ادنیٰ حاکم کی بھی اطاعت ضروری ہے بشرطیکہ معصیت الٰہی کا حکم نہ دیں
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ
بْنُ فُضَيْلٍ عَنْ فُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ عَنْ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ
قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ أَحَبَّ
النَّاسِ إِلَى اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَأَدْنَاهُمْ مِنْهُ مَجْلِسًا
إِمَامٌ عَادِلٌ وَأَبْغَضَ النَّاسِ إِلَى اللَّهِ وَأَبْعَدَهُمْ مِنْهُ
مَجْلِسًا إِمَامٌ جَائِرٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي
أَوْفَى قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا
نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ(جامع ترمذی حدیث نمبر: 1329 کتاب: حکومت وقضاء کے بیان امام عادل
کا بیان حکم: ضعيف)
ترجمہ : ابوسعیدخدری
رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:' قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ
محبوب اور بیٹھنے میں اس کے سب سے قریب عادل حکمراں ہوگا، اور اللہ کے نزدیک سب سے
زیادہ نآپسندیدہ اور اس سے سب سے دوربیٹھنے والا ظالم حکمراں ہوگا'۔امام ترمذی
کہتے ہیں:۱- ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن غریب
ہے،ہم اسے صرف اسی طریق سے جانتے ہیں،۲- اس باب میں
عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے ۔تشریح :نوٹ:(سند میں 'عطیہ عوفی'ضعیف
راوی ہیں)
کیا ہر حاکم کی
طاعت ضروری ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں کیا؟نہیں بلکل ہر حاکم کی طاعت ضروری نہیں
ہے بلکہ جو شریعت کو نافذ کرنے والا ہوں اس کی طاعت بس ضروری ہے.
فَهَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ
تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَ تُقَطِّعُوْۤا اَرْحَامَكُمْ(سورۃ محمد،آیت 22)ترجمۂ کنز الایمانتو کیا تمہارے یہ
لچھن نظر آتے ہیں کہ اگر تمہیں حکومت ملے تو زمین میں فساد پھیلاؤ اور اپنے رشتے کاٹ دو.
[حدیث
مبارکہ] حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جب امانتیں ضائع ہونے لگیں تو قیامت کا انتظار
کرو۔ پوچھا گیا: یا رسول اللہ! امانتوں کے ضائع ہونے کا مطلب کیا ہے؟ فرمایا: جب
اُمور نااہل لوگوں کو سونپے جانے لگیں تو قیامت کا انتظار کرو. (أخرجہ البخاري في
الصحیح، کتاب الرقاق، باب رفع الأمانۃ، 5/ 2382، الرقم/ 6131، وأحمد بن حنبل في
المسند، 2/ 361، الرقم/ 8714، وابن حبان في الصحیح، 1/ 307، الرقم/ 104، والبیھقي
في السنن الکبریٰ، 10/ 118، الرقم/ 20150، والدیلمي في مسند الفردوس، 1/ 335،
الرقم/ 1322، والمقریٔ في السنن الواردۃ في الفتن، 4/ 768، الرقم/ 381۔)