اللہ تعالی جب کسی کو حکمرانی عطا کرتا ہے تو ان کے ذمہ عوام کے کچھ فرائض ہوتے ہیں جن کو پورا کرنا ضروری ہوتا ہے اور حکمران بروز حشر اللہ تعالی کے سامنے  اپنی رعایا کا جواب دہ ہوگا حکمران کے رعایا پر پانچ حقوق بیان کیے جائیں گے

(1) تواضع انکساریمسلمان کو چاہیے کہ وہ تمام مسلمانوں کے ساتھ تواضع اور انکساری سے پیش ائے۔ اور اپنے اقتدار کی طاقت کی وجہ سے یا کسی بھی وجہ سے مسلمان کے ساتھ تکبر سے پیش نہ ائے۔ حاکم اس بات پر یقین رکھے کہ اللہ تعالی نے قران مجید میں ارشاد فرمایا:۔كَذٰلِكَ یَطْبَعُ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍترجمہ کنزالعرفان: اللہ ہرمتکبر سرکش کے دل پراسی طرح مہر لگا دیتا ہے۔(پ 24 ، س مومن، آیت نمبر 35)

(2)چغلی پر عمل سے اجتناب :رعایا کا دوسرا حق یہ ہے کہ حاکم لوگوں کی آپس میں ایک دوسرے کے خلاف کی جانب والی باتوں پر کان نہ دھرے ۔خاص طور پر فاسق اور خود غرض لوگوں کی باتوں پر یقین نہ کرے کیونکہ اس کا نتیجہ فتنہ فساد اور افسوس اور ندامت ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر ائے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو۔

(3) درگزر کرنا۔اللہ پاک نے قران مجید میں ارشاد فرمایا: قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّ مَغْفِرَةٌ خَیْرٌ مِّنْ صَدَقَةٍ یَّتْبَعُهَاۤ اَذًىؕ-وَ اللّٰهُ غَنِیٌّ حَلِیْمٌترجمہ کنزالعرفان:اچھی بات کہنا اور معاف کردینا اس خیرات سے بہتر ہے جس کے بعد ستانا ہو اور اللہ بے پرواہ، حلم والا ہے۔(پ3،س بقرہ، آیت نمبر 263)

اس کی تفسیر میں یوں ہے: کہ اچھی بات کہنا اور معاف کر دینا بہتر ہے اگر سائل کو کچھ نہ دیا جائے تو اس سے اچھی بات کہی جائے اور خوش خلقی کے ساتھ جواب دیا جائے جو اسے ناگوار نہ گزرے اور اگر وہ سوال میں اصرار کرے یا زبان درازی کرے تو اس سے درگزر کیا جائے۔ سائل کو کچھ نہ دینے کی صورت میں اس سے اچھی بات کہنا اور اس کی زیادتی کو معاف کر دینا اس صدقے سے بہتر ہے جس کے بعد اسے عار دلائی جائے یا احسان جتایا جائے یا کسی دوسرے طریقے سے اسے کوئی تکلیف پہنچائی جائے۔

تفسیر صراط الجنان : جب کسی کی غلطی کی وجہ سے حاکم ناراض ہو تو پھر اس شخص کو معاف کر دینے کی گنجائش موجود ہو تو حاکم کو چاہیے کہ ناراضگی کا اظہار کرنے کے بعد تین دن گزرنے سے پہلے سے معاف کر دے ۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’بے شک اللہ تعالیٰ درگزر فرمانے والا ہے اور درگزر کرنے کو پسند فرماتا ہے۔(مستدرک، کتاب الحدود، اول سارق قطعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، 5/ 543، الحدیث: ۸۲۱۶)

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ مَا سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’رحم کرنے والوں پر رحمٰن رحم فرماتا ہے، تم زمین والوں پر رحم کرو آسمانوں کی بادشاہت کا مالک تم پر رحم کرے گا۔(ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی رحمۃ المسلمین، 3 / 271، الحدیث: ۱۹۳۱)

( 4) اجتماعی طور پر عدل کا نفاذ کرنا۔

اللہ پاک نے قران مجید میں ارشاد فرمایا: وَ اِنْ طَآىٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَاۚ-فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰىهُمَا عَلَى الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰى تَفِیْٓءَ اِلٰۤى اَمْرِ اللّٰهِۚ-فَاِنْ فَآءَتْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَ اَقْسِطُوْاؕ-اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ ترجمہ کنزالعرفان: اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑپڑیں تو تم ان میں صلح کرا دو پھر اگران میں سے ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو اس زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے پھر اگر وہ پلٹ آئے تو انصاف کے ساتھ ان میں صلح کروادو اور عدل کرو، بیشک اللہ عدل کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔ (پ26،س حجرات،آیت نمبر9)

وَ اِنْ طَآىٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَاۚ- ترجمہ کنزالعرفان: اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑپڑیں تو تم ان میں صلح کرا دو 

.شان نزول :ایک مرتبہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) دراز گوش پر سوار ہو کر تشریف لے جا رہے تھے .اس دوران انصار کی مجلس کے پاس سے گزر ہوا تو وہاں تھوڑی دیر ٹھہرے اس جگہ دراز گوش نے پیشاب کیا تو عبداللہ بن ابی نے ناک بند کر لی یہ دیکھ کر حضرت عبداللہ بن رواحہ (رضی اللہ تعالی عنہ) نے فرمایا: حضور اکرم( صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے دراز گوش کا پیشاب تیرے مشک سے بہتر خوشبو رکھتا ہے.حضور پر نور( صلی اللہ علیہ والہ وسلم) تو تشریف لے گئے لیکن ان دونوں میں بات بھر گئی اور ان دونوں کی قومیں آپس میں لڑ پڑیں اور ہاتھا پائی تک نوبت پہنچ گئی. صورتحال معلوم ہونے پر سرکار دو عالم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) وآپس تشریف لائے اور ان میں صلح قرار دی اس معاملے کے بارے میں یہ ایت نازل ہوئی اور ارشاد فرمایا گیا:

اے ایمان والو! اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو تم سمجھا کر ان میں صلح کرا دو پھر اگر ان میں سے ایک دوسرے پر ظلم اور زیادتی کرے اور صلح کرنے سے انکار کر دے تو مظلوم کی حمایت میں اس زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ تعالی کے حکم کی طرف پلٹ ائے پھر اگر وہ اللہ تعالی کے حکم کی طرف پلٹ ائے تو انصاف کے ساتھ دونوں گروہوں میں صلح کروا دو اور دونوں میں سے کسی پر زیادتی نہ کرو (کیونکہ اس جماعت کو ہلاک کرنا مقصود نہیں بلکہ سختی کے ساتھ راہ راست پر لانا مقصود ہے) اور صرف اس معاملے میں ہی نہیں بلکہ ہر چیز میں عدل کرو.بے شک اللہ تعالی عدل کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔ تو وہ انہیں عدل کی اچھی جزا دے گا.(تفسیر صراط الجنان  جلالین مع صاوی ، الحجرات ، تحت الآیۃ : 9، 5/ 1992-1993، مدارک، الحجرات، تحت الآیۃ: 9، ص1153، روح البیان، الحجرات، تحت الآیۃ: 9، 9 /73-74، ملتقطاً)

(5)چادر اور چار دیواری کا تحفظ کرنا. رعایا کا پانچواں حق یہ ہے کہ حاکم وقت حکومت کے زور پر عام مسلمان کی چار دیواری کے حق کی خلاف ورزی نہ کریں اور اجازت لیے بغیر کسی کے گھر میں داخل نہ ہو عن انس، ان النبي صلى الله عليه وسلم: " كان في بيته فاطلع عليه رجل فاهوى إليه بمشقص فتاخر الرجل " حضرت انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں تھے (اسی دوران) ایک شخص نے آپ کے گھر میں جھانکا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیر کا پھل لے کر لپکے (کہ اس کی آنکھیں پھوڑ دیں) لیکن وہ فوراً پیچھے ہٹ گیا۔(سنن ترمذي كتاب الاستئذان والآداب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم 17. باب مَنِ اطَّلَعَ فِي دَارِ قَوْمٍ بِغَيْرِ إِذْنِهِمْ، حدیث نمبر: 2708)

اللہ پاک ہمارے وطن عزیز مک پاکستان کو بھی ایسے حکمران نصیب فرمائے جو رعایہ کے حقوق کا خیال رکھنے والے ہوں آمین بجاہ النبی الامین الکریم