محمد مجاہد رضا قادری (درجۂ ثالثہ جامعۃ المدینہ فیضان
فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
ہر شخص نگہبان
ہے ، ہر ایک سے اس کے ماتحت افراد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ جس کے ماتحت جتنے زیادہ
ہونگے وہ اتنا ہی زیادہ جوابدہ ہو گا۔ پھر جس خوش نصیب نے اپنے ماتحتوں اور اپنی رعایا کے ساتھ عدل و انصاف، شفقت و محبت ، خیر
خواہی، امانتداری اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہو گا وہ دنیا و آخرت میں کامیاب
ہو جائے گا، اسے بروزِ قیامت عرشِ الہی کا سایہ نصیب ہو گا اور اُس کا عدل و انصاف
اُس کے لئے باعث نجات ہو گا۔ اس کے برعکس جس حاکم نے اپنی رعایا کے ساتھ خیانت، ظلم و ستم ، دھوکا دہی، حق تلفی کا مظاہرہ کیا ہو گا،
اُن کی حاجات و ضروریات کی طرف کوئی توجہ نہ دی ہو گی تو وہ دنیا و آخرت میں نقصان
اُٹھائے گا، محشر کی گرمی میں اس کے لئے کوئی سایہ نہ ہو گا، رحمت خداوندی سے
محروم رہے گا اس لئے ہر شخص کو چاہیے کہ اپنے ماتحتوں کے حقوق کی ادائیگی کی
بھر پور کوشش کرے، جتنا ہو سکے نرمی سے پیش آئے، شفقت و محبت بھرا انداز اپنا ئے تاکہ دنیا و آخرت میں کامیابی و
کامرانی سے ہمکنار ھوسکے گا۔
1۔انصاف
کرنا حضرت سیدنا عبد الله بن عمرو
بن عاص رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُمَا سے روایت ہے کہ رسول الله صَلَّى اللهُ
تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ”بے شک انصاف کرنے والے اللہ
عَزَّ وَجَلَّ کے ہاں نور کے منبروں پر ہوں گے" یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی حکومت، اپنے اہل و عیال اور اپنے ماتحت لوگوں میں عدل وانصاف سے کام لیتے تھے "۔(مسلم، كتاب الامارة ،
باب فضيلة الامام العادل الخ، ص 783، حدیث : 4721 ملتقطا)
2۔ظلم
نہ کرنا حضرت سید نا عائذ بن عمر و
رَضِيَ اللهُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ وہ عبید اللہ بن زیاد کے پاس تشریف لے
گئے اور فرمایا: اے لڑکے میں نے رسول الله صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ
وَسَلَّم کو فرماتے ہوئے سنا: ” بے شک بدترین حکمران وہ ہیں جو رعایا پر ظلم کریں،
پس تو اپنے آپ کو ان میں شامل ہونے سے بچا۔“ (مسلم، کتاب
الامارة ، باب فضيلة الامام العادل الخ، ص 785, حدیث: 4733)
3۔خبر
گیری کرنا حضرت سیدنا عبد الله بن
عمرو بن عاص رَضِيَ اللهُ تَعَالٰی عَنْہُما سے روایت ہے کہ رسول الله صَلَّى
اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ”بے شک انصاف کرنے
والے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ہاں نور کےمنبروں پر ہوں گے " یہ وہ لوگ ہیں
جو اپنی حکومت اپنے اہل و عیال اور اپنے ماتحت لوگوں میں عدل وانصاف سے کام لیتے تھے" (مسلم، كتاب الامارة ،
باب فضيلة الامام العادل الخ، ص783 ، حدیث : 4721 ملتقطا)
4۔دھوکہ
نہ دینا۔حضرت سید نا ابو یعلی معقل
بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی الله تَعَالَ
عَلَيْهِ وَ الهِ وَسَلَّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ” جب اللہ عَزَّ وَ جَلَّ اپنے کسی بندے کو رعایا پر حاکم بنائے اور وہ اس حال میں مرے کہ اپنی رعایا کو دھوکا دیتا ہو تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس پر جنت حرام فرما دے گا۔“
ایک روایت میں ہے کہ ”وہ خیر خواہی کے ساتھ اُن کا خیال نہ رکھے تو وہ جنت کی
خوشبو بھی نہ پاسکے گا۔ “مسلم شریف کی روایت میں یہ ہے کہ ”جو مسلمانوں کے اُمور
پر والی بنایا جائے، پھر اُن کے لئے کوشش نہ کرے اور اُن سےخیر خواہی نہ کرے تو وہ
اُن کے ساتھ جنت میں داخل نہ ہو گا"(مسلم، کتاب الایمان، باب استحقاق الوالى
الغاش الخ، ص 78، حدیث: 366 بتغير قليل)
5۔محبت
کرنا۔حضرت سید نا عوف بن مالک اشجعی
رَضِيَ اللهُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ پیارے آقا صلَّى اللهُ تَعَالٰی
عَلَيْهِ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تمہارے بہترین حکام وہ ہیں جو تم سے محبت کریں
اور تم اُن سے محبت کرو تم انہیں دعائیں دو وہ تمہیں دعائیں دیں اور تمہارے بدترین
حکام وہ ہیں جن سے تم نفرت کر واور وہ تم سے نفرت کریں، تم اُن پر پھٹکار کرو وہ
تم پر لعنت کریں۔ صحابہ کرام عَلَيْهِمُ الرِّضوان نے عرض کی:” یارسول الله صَلَّى
اللهُ تَعَالَ عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم، کیا اس وقت ہم ان سے تلوار کے ذریعے جنگ
نہ کریں؟ فرمایا: ”نہیں جب تک وہ تم میں نماز قائم کریں، اور جب تم میں سے کوئی اپنے حاکم کو کسی گناہ میں ملوث دیکھے تو اسے چاہیے کہ اس گناہ کو برا جانے مگر
اس کی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچے۔ (مسلم، كتاب الامارة، باب خيار الائمة وشرارهم ، ص
795 ، حدیث : 4804)
حاکموں
کے لیے دعائے مصطفی: ام المومنین حضرت سیدنا عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی
اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اپنے اس گھر میں رسول اللہ صلی
اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا" اے اللہ عزوجل جو میری امت
کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنے اور پھر ان پر سختی کرے تو تو بھی اسے مشقت میں
مبتلا فرما اور جو میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنے اور اور ان سے نرمی سے پیش
آئے تو تو بھی اس سے نرمی والا سلوک فرما")(مسلم، كتاب الامارة، باب فضيلة
الامام العادل وعقوبة الجائر الخ، ص 784، حدیث: 4722)