معاشرےکےافرادکےظاہروباطن کو بُری خصلتوں سے پاک کرکےاچّھے اوصاف سے مزیّن کرنا اور انہیں معاشرے کا ایک باکردار فرد بنانا بہت بڑا کام اور انبیائے کرام علیہمُ الصَّلٰوۃ و السَّلام کا طریقہ ہے۔تربیت کرنے والے کو حُسْنِ اَخلاق کا پیکر،خیر خواہی کا جذبہ رکھنے والا،عَفْو و دَرگزر سے کام لینے والا،عاجزی اختیار کرنے والا،ہشّاش بَشّاش رہنے والا، حسبِ موقع مسکرانے والا، نَفاست پسند اور خوفِ خدا رکھنے والا ہونا چاہئے۔اگر ہم لوگوں کو سچّا مسلمان بنانا،دنیا و آخرت میں انہیں کامیاب و کامران دیکھنا اور خود بھی سُرخرُو (کامیاب) ہونا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ان کی اچّھے انداز سے تربیت کرنی ہوگی۔اچّھی تربیت میں جن اُمور کا لحاظ رکھا جاتا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ سامنے والے کی طبیعت اور مزاج کا خیال رکھا جائے اور بڑی حکمتِ عملی اور عَقْل مندی کے ساتھ تربیت کی جائے،سامنے والے کی نفسیات سمجھنے کو تربیت کے سلسلے میں بڑی اہمیت حاصل ہے،اس حوالے سے ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اندازِ تربیت بہترین نمونہ ہے اور یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ہے کہ کسی نبی کو جو عقل عطا کی جاتی ہے وہ اوروں سے بہت زیادہ ہوتی ہے،کسی بڑے سے بڑے عقل مند کی عقل ان کی عقل کے لاکھویں حصّے تک بھی نہیں پہنچ سکتی ۔ آئیے!رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تربیت کے واقعہ ملاحظہ کرتے ہیں:

حدىث (1)حضرت سیِّدُنا ابو عبد الرحمٰن عبد اللہ بن عُمَر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:میں نے رسولِ پاک صلّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو ارشاد فرماتے سنا کہ ”اِسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: اس بات کی گواہی دینا کہاللہ پاک کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور بےشک حضرت محمد  صلّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم   اللہ کے بندے اور رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ دینا،بیْتُ اللہ کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔( بخاری، كتاب الايمان، باب دعائكم ايمانكم، ۱/ ۱۴، حدیث:۸۔)

حدیث (2)حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ حضور نبی  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم   نے ارشاد فرمایا کہ ایمان کی شاخیں  ساٹھ سے کچھ زیادہ ہیں  اور’’ حیا‘‘ ایمان کی ایک بہت بڑی شاخ ہے۔ اس حدیث کو امام بخاری کے علاوہ مسلم ،نسائی ،ابودائود ،ابن ما جہ نے بھی اپنی اپنی کتابوں  میں  تحریر فرمایا ہے۔ (منتخب حدیثىں جلد 1حدىث3)

حدیث (3)حضرت سیدنا معاذ بن جبل رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ جب ان کو رسول  اﷲ  صلّی اﷲ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے یمن کی طرف قاضی بناکر بھیجا تو فرمایا کہ جب تجھے کوئی معاملہ پیش آئے تو تُو کیسے فیصلہ کرے گا۔ حضرت سیدنا معاذرضی اﷲ عنہ نے عرض کیا کہ میں  اﷲ  عزوجل کی کتاب کے ساتھ حکم کروں گا۔ آپ صلّی اﷲ علیہ واٰلہٖ وسلّمنے فرمایا اگر  اﷲ عزوجل کی کتاب میں تو اس کا حکم نہ پائے تو پھر کیا کرے گا۔ انہوں نے عرض کی کہ رسول کریم صلّی اﷲ علیہ واٰلہٖ وسلّمکی سنت کے ساتھ فیصلہ کروں گا۔ آپ صلّی اﷲ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا اگر تو رسول علیہِ السّلامکی سنت میں بھی اس حکم کو نہ پائے تو پھر کیا کرے گا ؟ انہوں نے عرض کی کہ میں اپنی عقل او ر رائے کے ساتھ اجتہاد کروں گا اور طلب ثواب میں کمی نہ کروں گا۔ حضرت سیّدنا معاذرضی اﷲ عنہ کہتے ہیں پھررسول کریم رؤف رحیم صلّی اﷲ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے میرے سینہ پر ہاتھ مارا اور فرمایاالحمد ﷲعزوجل کہ  اﷲ  تعالیٰ نے اپنے رسول صلّی اﷲ علیہ واٰلہٖ وسلم کے قاصد کو اس چیز کی توفیق دی جس کے ساتھ  اﷲ  تعالیٰ عزوجلکا رسول صلّی اﷲ علیہ واٰلہٖ وسلّم راضی ہے. (اربعین حنفیہ جلد 1 حدیث 3)

حدیث (4) روایت ہے حضرت عمر ابن خطاب( رضی اللہ عنہ) سے فرماتے ہیں کہ ایک دن ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرتھے کہ ایک صاحب ہمارے سامنےنمودارہوئے جن کے کپڑے بہت سفیداور بال خوب کالے تھے اُن پر آثارِ سفر ظاہر نہ تھے اور ہم سےکوئی اُنہیں پہچانتا بھی نہ تھا یہاں تک کہ حضور( صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس بیٹھے اور اپنے گھٹنے حضور(صلی اللہ علیہ وسلم) کےگھٹنوں شریف سے مَس کر دیئے اور اپنے ہاتھ اپنے زانو پر رکھے اور عرض کیا اَےمحمد(صلی اللہ علیہ وسلم)مجھے اسلام کے متعلق بتائیے فرمایا کہ اسلام یہ ہے کہ تم گواہی دو کہ ﷲ کےسواءکوئی معبودنہیں اورمحمد ﷲ کے رسول ہیں اور نماز قائم کرو،زکوۃ دو،رمضان کے روزے رکھو،کعبہ کا حج کرو اگر وہاں تک پہنچ سکو عرض کیا کہ سچ فرمایا ہم کو ان پرتعجب ہوا کہ حضور سے پوچھتےبھی ہیں اورتصدیق بھی کرتے ہیں عرض کیا کہ مجھے ایمان کے متعلق بتائیے فرمایاکہ ﷲ اور اس کے فرشتوں ،کتابوں اور اس کے رسولوں اور آخری دن کو مانواور اچھی بُری تقدیرکو مانو عرض کیا آپ سچے ہیں عرض کیامجھےاحسان کے متعلق بتائیے فرمایا ﷲ کی عبادت ایسے کرو کہ گویا اُسے دیکھ رہے ہو اگر یہ نہ ہوسکے تو خیال کرو کہ وہ تمہیں دیکھ رہاہے عرض کیا کہ قیامت کی خبر دیجئے فرمایا کہ جس سے پوچھ رہے ہو وہ قیامت کے بارے میں سائل سے زیادہ خبردارنہیں عرض کیا کہ قیامت کی کچھ نشانیاں ہی بتادیجئے فرمایا کہ لونڈی اپنے مالک کوجنے گی اور ننگے پاؤں ننگے بدن والے فقیروں،بکریوں کے چرواہوں کومحلوں میں فخر کرتےدیکھو گے راوی فرماتے ہیں کہ پھرسائل چلے گئے میں کچھ دیر ٹھہرا حضور(صلی اللہ علیہ وسلم) نے مجھے فرمایا اےعمرجانتے ہو یہ سائل کون ہیں مَیں نےعرض کیﷲ اوررسول جانیں فرمایا یہ حضرت جبریل تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے ۔ (مسلم)

حدیث (5) روایت ہے عمر ابن خطاب راضی الله عنہ   سے   فرماتے ہیں نبی کریم صلی  اللہ  علیہ وسلم نےفرماىا: کہ اعمال نیّتوں سے ہیں   ہرشخص کے لئے وُہ ہی ہے جو نیّت کرے  بس جس کی ہجرت   اللہ  و رسول کی طرف ہو تو اُس کی ہجرت  اللہ    ورسول ہی کی طرف ہوگی  اور جس کی ہجرت دنیاحاصل کرنے یا عورت سے نکاح کرنے کے لئے ہو   اس کی ہجرت اس طرف ہوگی جس کے لئے کی. (منتخب حدىثىں جلد 1)

الله عزوجل کی بارگاه مىں دعا هے کے خالق رب العزت ہمىں حضور کى تربىت پر عمل کرنے کی توفىق عطا فرمائے ۔