احمد رضا انصاری ( دورہ حدیث جامعہ
المدینہ فیضانِ بغداد کراچی ، پاکستان)
اللہ پاک کے آخری نبی ﷺ نے اپنے حکیمانہ اسلوب اور دل نشین
اندازِ گفتگو کے ذریعے اپنے غلاموں کی وہ تعلیم و تربیت فرمائی،جو قیامت تک آنے
والے لوگوں کے لیے تعلیم و تربیت کا ایک خوب صورت نصاب (Syllabus) بن
گئی،انہی حکیمانہ اسلوب اور دلوں پر اثر کرنے والی گفتگو میں سے مثالوں (Examples) کا استعمال کرکے تربیت فرماناہے،تاکہ مشکل باتوں کا سننے والوں
کے لیے سمجھنا آسان ہو اور ذہنوں میں نقش ہوجائے اسی طرح عمل کرنا اور دوسروں تک
پہنچانا آسان ہو، چنانچہ موضوع کے متعلق چند احادیث پڑھیئے:
(1)
صحابہ ستاروں کی مثل: صحابہ کرام رضوان
اللہ علیہم اجمعین آسمانِ ھدایت کے تارے ہیں،ان کی پیروی کرنا دنیا و آخرت میں کامیابی
کا ذریعہ ہے، چنانچہ اللہ پاک کے آخری نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ
فَبِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمْ اهْتَدَيْتُمْ یعنی
میرے صحابہ تاروں کی طرح ہیں تو تم ان میں سے جس کی پیروی کرو گے ہدایت پاؤ
گے۔(مشکوۃالمصابیح،ج2،ص355،حدیث6018)
(2)
اہل بیت کشتی نوح کی مثل: جس طرح جنتی صحابہ
کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے طریقوں پر چلنا نجات کا راستہ ہے،اسی طرح
اہل بیت کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی پیروی کرنا بھی نجات کا ذریعہ ہے،چنانچہ
اللہ پاک کےآخری نبی ﷺ نے
ارشاد فرمایا: أَلَا
إِنَّ مِثْلَ أَهْلِ بَيْتِي فِيكُمْ مِثْلُ سَفِينَةِ نُوحٍ مَنْ رَكِبَهَا نَجَا
وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا هَلَكَ
یعنی آگاہ
رہو! کہ تم میں میرے اہل بیت کی مثال جناب نوح علیہ السلام کی کشتی کی طرح ہے،جو
اس میں سوار ہوگیا نجات پا گیا اور جو اس سے پیچھے رہ گیا ہلاک ہوگیا۔(فضائل صحابہ
احمد بن حنبل، فضائل الحسن و الحسین رضی اللہ عنہما، حدیث1402)
مفتی احمد یار
خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:دوسری حدیث میں ہے کہ میرے
صحابہ تارے ہیں تم جس کی پیروی کرو گے ہدایت پاجاؤ گے،گویا دنیا سمندر ہے اس سفر میں
جہاز کی سواری اور تاروں کی رہبری دونوں کی ضرورت ہے۔الحمد ﷲ! اہل سنت کا بیڑا پار
ہے کہ یہ اہلِ بیت اور صحابہ دونوں کے قدم سے وابستہ ہیں۔ (مراۃالمناجیح،ج8،ص405قادری
پبلشرز)
(3)
اچھے اور برے دوست کی مثال: دوست زندگی کا ایک
حصہ ہے،اچھے دوست دنیا میں بھی فائدہ پہنچاتے ہیں اور آخرت میں بھی جبکہ برے دوست
دونوں جہان میں نقصان کا سبب بنتے ہیں،جیساکہ فرمان آخری نبی ﷺ ہے کہ: إِنَّمَا مَثَلُ الجَلِيسِ الصَّالِحِ، وَالجَلِيسِ
السُّوءِ، كَحَامِلِ المِسْكِ، وَنَافِخِ الكِيرِ، فَحَامِلُ المِسْكِ: إِمَّا
أَنْ يُحْذِيَكَ، وَإِمَّا أَنْ تَبْتَاعَ مِنْهُ، وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ مِنْهُ
رِيحًا طَيِّبَةً، وَنَافِخُ الكِيرِ: إِمَّا أَنْ يُحْرِقَ ثِيَابَكَ، وَإِمَّا
أَنْ تَجِدَ رِيحًا خَبِيثَةً
اچھے برے ساتھی
کی مثال مشک کے اٹھانے اور بھٹی دھونکنے والے کی سی ہے،مشک اٹھانے والا یا تمہیں
کچھ دے دے گا یا تم اس سے خرید لو گے اور یا تم اس سے اچھی خوشبو پالو گے اور بھٹی
دھونکنے والا یا تمہارے کپڑے جلادے گا اور یا تم اس سے بدبو پاؤ گے۔(مسلم،کتاب
البر و الصلۃ ، رقم: 2628)
سبحان الله! کیسی
پاکیزہ مثال ہے جس کے ذریعہ سمجھایا گیا ہے کہ بروں کی صحبت فائدہ اور اچھوں کی
صحبت نقصان کبھی نہیں دے سکتی۔(مرآۃالمناجیح،ج6،ص400قادری پبلشرز)
(4)
ذکر اللہ کرنے اور نہ کرنے والے کی مثال: اللہ پاک کے ذکر سے اپنی زبان کو تر رکھنا روح و بدن،دل و
دماغ اور زندگی کو سکون بخشتا ہےاور اس کے برعکس ذکرِ الٰہی و یاد خدا سے غفلت
برتنا،زندگی کو ویران اور پریشان بنادیتا ہے،چنانچہ آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم
نے رشاد فرمایا: مَثَلُ
الَّذِيْ يَذْكُرُ رَبَّهٗ وَالَّذِيْ لَا يَذْكُرُ مَثَلُ الْحَيِّ وَالْمَيِّتِ یعنی اس کی مثال جو رب کا ذکر کرے اور جو نہ کرے
زندہ و مردہ کی طرح ہے۔(بخارى،کتاب الدعوات، باب فضل ذکر اللہ ،رقم:6407)
لہذا ذکرِ
الٰہی میں مصروف رہ کر حقیقی زندگی گزاریئے اور مردہ دلی و مردہ زندگی
سے محفوظ رہیے۔
(5)
امتی اور حضورﷺکی مثال: اللہ پاک کے آخری نبی ﷺ اپنی امت کی بہت زیادہ بھلائی چاہنے
والے ہیں،چنانچہ آخری نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: مَثَلِي وَمَثَلُكُمْ كَمَثَلِ
رَجُلٍ اَوْقَدَ نَاراً فَجَعَلَ الجَنَادِبُ والفَرَاشُ يَقَعْنَ فِيْهَا وَهُوَ
يَذُبُّهُنَّ عَنْهَا وَاَنَا اٰخِذٌ بِحُجَزِكُمْ عَنِ النَّارِ، وَاَنْتُمْ تَفَلَّتُوْنَ
مِنْ يَدَيَّ
’’میری اور
تمہاری مثال اس شخص کی طرح ہےجس نے آگ جلائی تو ٹڈیاں اور پروانے اس
میں گرنے لگےاور وہ شخص اُنہیں آگ میں گرنے سے بچاتا ہےاورمیں بھی تمہیں تمہاری کمر سے پکڑ کر آگ (میں گرنے) سےبچاتا ہوں اور تم میرے
ہاتھ سے نکلے جاتے ہو.‘‘(مسلم،کتاب الفضائل، باب شفقۃ
ﷺ ۔۔الخ، ج4،ص1790رقم:2285)
قارئین
کرام!اللہ پاک کے آخری نبی ﷺ تو ہمیں جہنم سے بچانے پر کس
قدر حریص ہیں، ایک ہم ہیں کہ اسی طرف جانے والے اعمال کرتے ہیں،اگر ہم اپنی دنیا و
آخرت کو سنوارنے کا ذہن رکھتے ہیں تو فرامینِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں ہمارے لیے بہترین تعلیم و تربیت ہے، جس پر
عمل کرنا ہمیں دونوں جہان میں کامیابی دلاسکتا ہے۔
Dawateislami