محمد یامین ( درجہ رابعہ جامعۃ
المدینہ فیضان بخاری کراچی ، ، پاکستان)
نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کو اللہ پاک نے ہر خوبی سے نوازا ہے۔ آپ علیہ الصلاۃ والسلام کا
بات کرنے کا انداز، صحابہ کرام علیہم الرضوان کے درمیان رہنے کا انداز، آپ کا تربیت
کرنے کا طریقہ ، سب بے مثل و بے مثال ہے۔ اللہ کریم نے اپنے حبیب
علیہ الصلاۃ والسلام کی زندگی کو قرآن کریم میں اسوہ حسنہ کے نام سے ذکر کیا ہے۔
اسی کے ساتھ، آپ کا تربیت فرمانے کا انداز،
لوگوں کو سمجھانے کا طریقہ بھی بہت خوب تھا۔ آپ علیہ الصلاۃ والسلام اپنے صحابہ
کرام علیہم الرضوان کو مثالوں سے سمجھاتے تھے۔ اور یہ انسانی فطرت ہے کہ انسان کو
کسی چیز کی مثال دی جائے تو وہ جلدی سمجھ جاتا ہے اور اس کو یاد رکھنا بھی آسان
ہوجاتا ہے۔
جیسا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کو نماز کی فضیلت و اہمیت کے بارے میں تربیت فرماتے
ہوئے فرمایا۔ جسے حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: “آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم موسمِ سرما میں باہر تشریف لائے
جبکہ درختوں کے پتے جَھڑ رہے تھے۔ تو آپ نے ایک درخت کی ٹہنی پکڑ کر اس کے پتّے
جھاڑتے ہوئے ارشاد فرمایا: اے ابوذر! میں نے عرض کی: یارسولَ اللہ! میں حاضر ہوں۔ ارشاد فرمایا: بے شک جب کوئی مسلمان اللہ پاک کی رضا کے
لئے نَماز پڑھتا ہے تو اس کے گناہ ایسے جھڑتے ہیں جیسے اس درخت کے پتے جھڑ رہے ہیں۔(مسند احمد، ج 8، ص 133، حدیث: 21612)
اسی طرح، ایک اور مقام پر رسولِ کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نماز کے ذریعے گناہوں کے ختم ہونے کی مثال بیان فرماتے ہوئے
صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان سے ارشاد فرمایا:بھلا بتاؤ کہ اگر کسی کے دروازے پر
نہر ہو اور اس میں وہ روزانہ پانچ مرتبہ نہاتا ہو تو کیا اس کے بدن پر کچھ میل باقی
رہ جائے گا؟ صحابۂ کرام نے عرض کی:اس کے جسم پر کچھ بھی میل
باقی نہیں رہے گا۔ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا: یہ مثال پانچوں نمازوں کی ہے۔ اللہ پاک اس کے ذریعے گناہوں کو معاف
کر دیتا ہے۔ (بخاری، ج 1، ص 196، حدیث: 528)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ مثال دے
کر نماز کی عظمت اور تاثیر کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے دل میں بٹھایا، تاکہ
وہ نماز کی حفاظت کریں۔ اور جس طرح ظاہری میل کچیل نہانے سے دھل جاتا
ہے، ویسے ہی نماز دل کی گندگی، روحانی غفلت اور گناہوں کے اثرات کو
دھوتی ہے۔
اور دنیا کی حقیقت کو واضح کرنے کے لیے حضور صلی
اللہ علیہ وسلم نے کیا خوب مثال دی ہے: حضرت سیّدُنا جابر
بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کا گزر چھوٹے کان والے بکری کے ایک مُردہ بچے کے پاس سے ہوا۔ کچھ صحابۂ کرام بھی
آپ کے ہمراہ تھے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس کا کان پکڑا اور فرمایا: تم میں سے کون اسے ایک درہم میں خریدنا چاہے گا؟ لوگوں نے عرض کی: ہم اسے کسی بھی چیز کے
بدلے میں لینا پسند نہیں کرتے، ہم اس کا کیا کریں گے؟ ارشاد فرمایا: “کیا
تم پسند کرتے ہو کہ یہ تم کو مل جائے؟ انہوں نے عرض کی: اللہ پاک کی قسم! اگر یہ زندہ
ہوتا تب بھی اس میں عیب تھا کہ اس کا ایک کان چھوٹا ہے، اور اب جبکہ یہ مرچکا ہے،
کوئی اسے کیسے لے گا؟ حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک کی قسم! جیسے تمہاری نظروں میں یہ مُردہ بچہ کوئی وقعت
نہیں رکھتا، اللہ پاک کے نزدیک دنیا اس سے بھی زیادہ حقیر ہے۔(مسلم، ص 1210، حدیث: 7418)
آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے ایک مری ہوئی بکری کے
بچے کی مثال دے کر صحابہ کو دنیا کی حقیقت سمجھائی کہ جس طرح وہ مردہ اور ناقص
جانور کسی کے کام کا نہیں، اسی طرح اللہ کے نزدیک یہ دنیا بھی بے وقعت ہے۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کے طفیل صحیح طریقے سے سمجھانے کی توفیق عطا فرمائے، دین و دنیا کی
بھلائیاں عطا فرمائے، دنیا کی محبت سے بچائے، اور اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق
عطا فرمائے۔آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم
Dawateislami