محمد صائم قریشی (درجہ خامسہ جامعۃُ
المدینہ فیضانِ ابوعطار، کراچی ، پاکستان)
اللہ پاک نے
رسولُ اللہ ﷺ کو معلمِ انسانیت بنا کر مبعوث فرمایا۔ چنانچہ رسولِ پاک ﷺ کا فرمان
ہے:
إِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا یعنی میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ (سنن ابن ماجہ، ج1، ص218، رقم 229
باب: فضل العلماء والحث على طلب العلم)
آپ ﷺ نے تربیتِ
انسانی کے لیے مختلف طریقے اختیار فرمائے، جن میں سے ایک مؤثر طریقہ ”مثالوں کے ذریعے
تعلیم دینا“ ہے ۔ رسولُ اللہ ﷺ کی تعلیمات میں مثالوں کا استعمال ایک نہایت حکیمانہ
اسلوب تھا، جس کے ذریعے آپ ﷺ نے مشکل باتوں کو عام فہم انداز میں سمجھایا۔ یہ طریقہ
نہ صرف سمجھنے میں آسان ہوتا ہے بلکہ ذہن میں نقش بھی ہو جاتا ہے۔موضوع کے متعلق چند فرامینِ مصطفیٰ ﷺ ملاحظہ کیجیے
:
(1) ذکرُ اللہ نہ کرنے والے کی مثال: جو لوگ ذکر اللہ نہیں کرتے، ان کی مثال دیتے ہوئے اللہ پاک کے آخری نبی ﷺ نے فرمایا: مَثَلُ الَّذِیْ یَذْكُرُ
رَبَّهٗ، وَالَّذِیْ لَا یَذْكُرُ، مَثَلُ الْحَیِّ وَالْمَیِّتِ ترجمہ: جو اپنے رب کا ذکر کرتا ہے اور جو نہیں
کرتا، دونوں کی مثال زندہ اور مردہ کی سی ہے۔ (صحیح بخاری، ج8، ص86، رقم: 6407
كتاب: الدعوات، باب : فضل ذكر الله عزوجل)
جیسے زندہ کا جسم روح سے آباد ہوتا ہے اور مردہ
کا جسم ویران، ایسے ہی ذاکر کا دل ذکر سے آباد اور غافل کا دل ویران ہوتا ہے۔
(2) بغیر ذکرُ اللہ کے مجلس سے اٹھنے کی مثال: جو لوگ اپنی مجلس سے اللہ کا ذکر کیے بغیر اٹھتے ہیں، ان
کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: مَا
مِنْ قَوْمٍ یَقُومُونَ مِنْ مَجْلِسٍ لَا یَذْكُرُونَ اللہ َ فِیْهِ، إِلَّا قَامُوا
عَنْ مِثْلِ جِیفَةِ حِمَارٍ، وَكَانَ لَهُمْ حَسْرَةً ترجمہ: جو لوگ کسی مجلس سے اللہ کا ذکر کیے بغیر اٹھتے ہیں،
وہ مردار گدھے کی مانند اٹھتے ہیں، اور یہ ان کے لیے حسرت کا باعث ہوتا ہے۔ (سنن
ابی داؤد، ج5، ص115، رقم 4855، کتاب الادب ، باب کراھیۃ أن یقوم الرجل من مجلسہ
ولا يذكر الله)
مفتی احمد یار
خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ نے اس کی تشریح میں فرمایا: گویا یہ غافل لوگ مردار
گدھا کھا کر اٹھے، جو پلید بھی ہے، حقیر بھی اور
شیطان کا مظہر بھی، کیونکہ اس کے بولنے پر لاحول ،پڑھی جاتی ہے۔ غرض یہ کہ اللہ کے
ذکر سے خالی مجلسیں مردار گدھے کی طرح ہیں اور ان میں شرکت کرنے والے گویا وہ
مردار کھا رہے ہیں۔(مراۃ المناجیح، ج3،ص361)
(3) قرآن کی تلاوت نہ کرنے والے کی مثال: دل ایک لطیف اور عجیب چیز ہے، جس کا صحیح رہنا ضروری ہے۔
قرآن کی تلاوت اس دل کو زندہ رکھنے کا ذریعہ ہے۔ جو لوگ قرآن کی تلاوت نہیں کرتے،
ان کے بارے میں اللہ پاک کے آخری نبی ﷺ نے فرمایا: إِنَّ الَّذِیْ لَیْسَ فِیْ
جَوْفِهِ شَیْءٌ مِنَ الْقُرْآنِ، كَالْبَیْتِ الْخَرِبِ ترجمہ: جس کے سینے میں قرآن نہیں، وہ ویران گھر کی طرح
ہے۔(جامع ترمذی، ج5، ص35، رقم 2913 باب: فضائل القرآن عن رسول اللہ ﷺ)
جیسے گھر انسان و سامان سے آباد ہوتا ہے، ویسے ہی
دل قرآن سے آباد ہوتا ہے۔ جو دل قرآن سے خالی ہو، وہ دل ویران اور بے برکت ہوتا
ہے۔
(4) حافظِ قرآن کی مثال: حافظِ قرآن بننا اللہ پاک کی ایک بڑی نعمت ہے۔ اگرچہ حفظِ
قرآن فرض نہیں، مگر جب کوئی شخص حفظ کرے تو یاد رکھنا اس پر ضروری ہو جاتا ہے۔ چنانچہ رسولُ اللہ ﷺ نے فرمایا: إِنَّمَا مَثَلُ صَاحِبِ
الْقُرْآنِ، كَمَثَلِ صَاحِبِ الْإِبِلِ الْمُعَقَّلَةِ، إِنْ عَاهَدَ عَلَیْهَا
أَمْسَكَهَا، وَإِنْ أَطْلَقَهَا ذَهَبَتْ ترجمہ: حافظِ قرآن کی مثال رسی سے بندھے اونٹ کے مالک جیسی ہے، اگر نگرانی
کرے تو قابو میں رہے گا، ورنہ رسی تڑوا کر بھاگ جائے گا۔ (صحیح بخاری، ج6، ص193،
رقم 5031، کتاب: فضائل القرآن، باب استذکار القرآن، وتعاھدہ)
قرآن کو یاد رکھنے کے لیے مسلسل دہرانا ضروری
ہے، ورنہ وہ دل سے محو ہو جاتا ہے۔(یعنی بُھلا دیا جاتا ہے) اگر حافظ قرآن قرآنِ
پاک کو دل میں بِٹھا لے تو وہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہوتا ہے۔
اللہ پاک کے
آخری نبی ﷺ کا تربیتی اسلوب اتنا جامع اور مؤثر ہے کہ
آج بھی آپ ﷺ کی دی گئی مثالیں دلوں کو روشن کرتی ہیں۔ آپ ﷺ کی حکمت عملی یہ تھی کہ
مشکل بات کو مثال کے ذریعے آسان بنایا جائے تاکہ عام و خاص سب افراد سمجھ سکیں۔ آج
کے دور میں اس اسلوب کو بھی اپنائیں، تو تعلیم و دعوت مزید مؤثر بن سکتی ہے۔ ہمیں
بھی چاہیے کہ ہم دین کی بات کو لوگوں کے دلوں میں اتارنے کے لیے حکمت، محبت اور
مثالوں کے ساتھ پیش کریں۔
Dawateislami