محمد طلحہ شوکت ( تخصص فی الحدیث جامعۃُ
المدینہ فیضانِ مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور ، پاکستان
اللہ تعالیٰ
نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ صرف آخری نبی بنایا، بلکہ ایک بہترین معلم
اور تربیت فرمانے والا بھی بنایا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے دین کی باتوں کو صرف
الفاظ کے ذریعے نہیں، بلکہ مثالوں کے ذریعے اس انداز میں سمجھایا کہ وہ باتیں دلوں
میں اتر گئیں۔ آپ ﷺ نے ان مثالوں کو بیان
کرنے کے مختلف ذرائع اور انداز اختیار فرمائے جن کا مقصود آسانی سے مخاطب کو بات
سمجھانا ہے اور یہ انداز کلام میں ایک بلیغ انداز ہے کہ
جس میں مثال کے ذریعے متکلم غیر واضح حقیقت کو مخاطب کے فہم و شعور میں اجاگر کرنے
یا قریب تر لانے کے لیے اسے کسی محسوس واضح چیز سے تشبیہ دے، جیسا کہ قرآن پاک میں
الله پاک نے ارشاد فرمایا : وَ تِلْكَ الْاَمْثَالُ
نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُوْنَ(۲۱) ترجمۂ کنز العرفان: اور ہم یہ مثالیں لوگوں کے لیے
بیان فرماتے ہیں تاکہ
وہ سوچیں ۔ (الحشر: 21)
جس طرح قرآن کریم میں مثالوں کے ذریعے تربیت
فرمائی گئی ہے ایسے ہی احادیث میں بھی فرمائی گئی ہے،جس کی چند مثالیں مندرجہ ذیل
ہیں :
(1)
اچھی اور بری صحبت کی مثال : حضرت
ابو موسیٰ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مَثَلُ الجَلِيسِ الصَّالِحِ وَالسَّوْءِ كَحَامِلِ
المِسْكِ وَنَافِخِ الكِيرِ، فَحَامِلُ المِسْكِ: إِمَّا أَنْ يُحْذِيَكَ،
وَإِمَّا أَنْ تَبْتَاعَ مِنْهُ، وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ مِنْهُ رِيحًا طَيِّبَةً،
وَنَافِخُ الكِيرِ: إِمَّا أَنْ يُحْرِقَ ثِيَابَكَ، وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ رِيحًا
خَبِيثَةً۔ یعنی نیک ساتھی اور
بُرے ساتھی کی مثال کستوری (خوشبو) بیچنے والے اور بھٹی میں پھونک مارنے والے کی سی
ہے۔ کستوری بیچنے والا یا تو تمہیں خوشبو تحفے میں
دے گا، یا تم اس سے خرید لوگے، یا کم از کم تمہیں اس سے خوشبو محسوس ہوگی۔ اور بھٹی میں پھونک مارنے والا یا تو تمہارے کپڑے جلا دے
گا، یا تمہیں اس سے بدبو محسوس ہوگی۔(بخاری ،کتاب الذبائح و الصید ، باب المسک ،
جلد:1 ، صفحہ 1035 ، حدیث:5534،الناشر: دارالکتب العلمیہ بیروت ، طبعہ: الحادیہ
عشرہ ، سن طباعت : 2022 )
نیک لوگوں کی
صحبت انسان کو نیک بنا دیتی ہے اور بُرے لوگوں کی صحبت انسان کو برا بنا دیتی ہے
(2) مومن اور کافر کی مثال: حضرت ابو ھریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: الدُّنْيَا سِجْنُ المُؤْمِنِ
وَجَنَّةُ الكَافِرِ یعنی دنیا
مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہے۔ ( ترمذی ، کتاب الزھد ، باب ما جاء
ان الدنیا سجن المؤمن۔۔۔الخ، جلد: 1 صفحہ: 556 ، حدیث: 2324 ، الناشر: دارالکتب
العلمیہ بیروت ، طبعہ: سابعہ ، سن طباعت: 2019)
مومن
کے لیے دنیا اس وجہ سے قید خانہ ہے کیونکہ وہ اپنی مرضی کے مطابق زندگی نہیں گزار
سکتا بلکہ شریعت کے مطابق زندگی گزارنے کا مکلف بنایا گیا ہے جبکہ کافر کے لیے یہ دنیا اس وجہ سے جنت ہے کیونکہ اسے کسی بھی
چیز کا مکلف نہیں بنایا گیا اس کے لیے جو بھی عیش و آرام ہے وہ صرف دنیا میں ہے
آخرت میں دائمی عذاب ہو گا۔
(3) رزق کی مثال: حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لَوْ أَنَّكُمْ تَتَوَكَّلُونَ
عَلَى اللَّهِ حَقَّ تَوَكُّلِهِ، لَرُزِقْتُمْ كَمَا تُرْزَقُ الطَّيْرُ، تَغْدُو
خِمَاصًا وَتَرُوحُ بِطَانًا۔ یعنی
اگر تم اللہ پر ایسا بھروسا کرو جیسا
کہ واقعی بھروسا کرنے کا حق ہے، تو وہ تمہیں رزق اسی طرح دے گا جیسے پرندوں کو دیتا
ہے: وہ صبح بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو بھرے پیٹ واپس آتے ہیں۔ (ترمذی ، کتاب
الزھد ، باب فی التوکل علی اللہ ،
جلد:1 صفحہ: 560 ، حدیث: 2344 ، الناشر: دارالکتب العلمیہ بیروت ، طبعہ: سابعہ ،سن
طباعت: 2019)
صرف ہاتھ پر
ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانا توکل نہیں، بلکہ کوشش کے ساتھ اللہ پر اعتماد کرنا اصل توکل
ہے۔
جیسے پرندے بغیر کچھ جمع کیے، صرف محنت اور
بھروسے سے اپنا پیٹ بھر لیتے ہیں۔
(4)
مال اور عزت کی مثال: حضرت ابن کعب بن مالک
الانصاری نے اپنے والد سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَا ذئْبَانِ جَائِعَانِ
أُرْسِلَا فِي غَنَمٍ، بِأَفْسَدَ لَهَا مِنْ حِرْصِ المَرْءِ عَلَى المَالِ
وَالشَّرَفِ لِدِينِهِ۔ یعنی دو
بھوکے بھیڑیے جو کسی بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیے جائیں، وہ اتنا نقصان نہیں
پہنچاتے جتنا مال اور عزت کی حرص (لالچ) انسان کے دین کو نقصان پہنچاتی ہے۔(ترمذی
، کتاب الزھد ، باب ما جاء فی اخذ المال ، جلد:1 ، صفحہ: 565 ، حدیث: 2376 ،
الناشر: دارالکتب العلمیہ بیروت ، طبعہ: سابعہ ، سن طباعت: 2019 )
جیسے بھیڑیے
بکریوں کو چیر پھاڑ کر تباہ کر دیتے ہیں، ویسے ہی اگر انسان کے دل میں مال اور
شہرت کی شدید خواہش ہو، تو وہ اس کے ایمان، اخلاص اور دینداری کو تباہ کر دیتی ہے۔ یعنی دنیا کی لالچ بندے کو دینی فساد میں مبتلا کر دیتی
ہے۔
(5) مومن کی مثال : حضرت نعمان بن بشیر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تَرَى الْمُؤْمِنِينَ فِي تَرَاحُمِهِمْ وَتَوَادِّهِمْ
وَتَعَاطُفِهِمْ كَمَثَلِ الْجَسَدِ، إِذَا اشْتَكَى عُضْوًا، تَدَاعَى لَهُ
سَائِرُ جَسَدِهِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى یعنی
تم دیکھو گے کہ مومن (آپس میں) ایک دوسرے پر رحم کرنے، محبت رکھنے اور ہمدردی کرنے
میں ایک جسم کی مانند ہیں۔ جب جسم کا ایک عضو (حصہ) تکلیف میں ہوتا ہے، تو سارا جسم بے خوابی
اور بخار کی کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔ (بخاری ، کتاب الادب ، باب رحمۃ الناس و البھائم ، جلد:1 ، صفحہ: 1444 ،
حدیث: 6011 ، الناشر: بیروت - لبنان ، طبعہ: الثالثہ ، سن طباعت: 2024
تمام مومنین ایک
دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں، جیسے جسم کے اعضا۔ اگر ایک کو تکلیف ہو، تو
باقی سب کو بھی اس کا احساس ہوتا ہے یہی ایمان کا تقاضہ ہے۔
Dawateislami