انسان کی یہ فطرت ہے وہ لہو ولعب سے خوش رہتا ہے لیکن جب اسے کوئی نیکی یا اصلاح کی بات کی جائے تو اکتاہٹ محسوس کرتا ہے اسی لیے حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے لوگوں کی فطرت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کی توجہ کو طلب کرنے کے لیے مثالیں دیکھ کر بات سمجھانے کا اسلوب اپنایا اور مثالوں کے ذریعے سے اپنی امت کو سمجھانے کی ایک وجہ نہیں ہے بلکہ اور بھی وجوہات ہیں ان میں سے کچھ بات کو واضح کرنا اور آسان کرنا اور گہرے مفہوم کو آسان کرنا مثالوں کے ذریعے سے سمجھانا انبیا کی سنت ہے اور طریقہ قرآنی ہے ان تمام وجوہات کو پیش نظر رکھتے ہوئے حضور علیہ الصلوۃ والسلام اپنی امت کو مثالوں کے ذریعے سمجھاتے وہ احادیث جن میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے مثالوں کے ذریعے سے تربیت فرمائی ان میں سے چند کا مطالعہ کیجیے :

(1)حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے ارشاد فرمایا : کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے جو حضرت ہارون کو حضرت موسی سے تھی سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔( صحیح بخاری ، کتاب المغازی ،باب غزوة تبوك وهى غزوةالعسرة ،حدیث نمبر 4416 صفحہ ،794 ،مکتبہ دارالکتب علمیہ)

(2)حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا : نیک ہم نشین کی مثال خوشبو والے کی طرح ہے اگر تو اس سے کچھ بھی نہ خریدے تو عمدہ خوشبو کو اس سے پا ہی لے گا اور برے ہم نشین کی مثال بھٹی دھونکانے والے کی طرح ہے اگر تو اس کی سیاہی سے بچ بھی جائے تو اس کا دھواں تجھے ضرور پہنچے گا ۔( صحیح بخاری ،کتاب الذبائح والصید والتسمیۃ علی لصید ،باب المسک، حدیث نمبر 5534،صفحہ نمبر ،1035،مکتبہ دارالکتب علمیہ)

(3)حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی علیہ الصلاۃ والسلام نے ارشاد فرمایا : بے شک میری مثال اور اس کی جس کے ساتھ مجھے مبعوث کیا ہے اس شخص جیسی ہے جس نے اپنی قوم کے پاس آ کر کہا : اے قوم میں نے اپنی آنکھوں سے ایک فوج دیکھی ہے میں تمہیں واضح طور پر اس سے ڈرانے والا ہوں لہذا اپنے آپ کو بچا لو چنانچہ اس کی قوم میں سے ایک جماعت نے اس کی بات مانی لہذا راتو رات نکل کر پناہ گاہ میں جا چھپے اور بچ گئے جبکہ ایک جماعت نے اسے جھٹلایا اور صبح تک اپنے مقامات پر ہی رہے منہ اندھیرے لشکر نے ان پر حملہ کر دیا پس انہیں ہلاک کر کے غارت گری کا بازار گرم کیا پس یہ مثال ہے اس کی جس نے میری اطاعت کی اور جو میں لے کر آیا ہوں اس کی پیروی کی اور اس شخص کی مثال جس نے میری نافرمانی کی اور جو حق میں لے کر آیا ہوں اس جھٹلایا۔ (صحیح بخاری ،کتاب الرقائق، باب الانتہاءعن المعاصی، حدیث نمبر 6482 ،صفحہ 1184، مکتبہ دار الکتب العلمیہ)

حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا : میرے پاس ایک فرشتہ آیا اور اس نے کہا : آپ کی اور آپ کی امت کی مثال اس طرح ہے جیسا کہ بادشاہ نے ایک بڑا مکان بنایا پھر اس میں ایک گھر بنایا وہاں ایک دسترخوان لگا کر ایک قاصد کو بھیجا کہ وہ لوگوں کو کھانے کی دعوت دے چنانچہ بعض نے دعوت قبول کی اور بعض نے دعوت قبول نہ کی ۔یعنی اللہ بادشاہ ہے وہ بڑا مکان اسلام ہے اور اس کے اندر والا گھر جنت ہے اور اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ رسول ہیں ، جس نے آپ کی دعوت قبول کی وہ اسلام میں داخل ہوا جو اسلام میں داخل ہوا وہ جنت میں بھی داخل ہوگا ، جو جنت میں داخل ہو گیا اس نے اس میں موجود چیزیں کھا لیں۔ (صحیح بخاری ،کتاب الاعتصام باالکتاب واالسنۃ،باب اقتداء سنن رسول اللہ ،حدیث نمبر7280،صفحہ نمبر 1381،مکتبہ دار الکتب علمیہ)

چنانچہ ان مثالوں میں ہمارے لیے بے شمار عبر ت و نصحتیں موجود ہیں ہم ان مثالوں کے ذریعے اپنی زندگی کو سنوار سکتے ہیں اور امثال الاحادیث ہمارے لیے نہایت ہی اہمیت کی حامل ہیں حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں مثالوں کے ذریعے کیوں سمجھایا تاکہ ہم غور و فکر کریں عبرت و نصیحت حاصل کریں اور ہم شوق سے پڑھیں اور غور سے سنیں غیر شعوری طور پر ان سے جو مسائل و نصیحت حاصل ہوتے ہیں ان پر عمل کریں مثالوں کے ذریعے سے تربیت فرمانا یہ صرف احادیث میں نہیں بلکہ یہ طریقہ قرآنی بھی ہے تمثیلات کا موضوع بڑی اہمیت رکھتا ہے اس میں تدبر کرنا اور قرآن وحدیث سمجھنا نہایت ضروری ہے قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:وَ تِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُوْنَ(۲۱) ترجمۂ کنز العرفان: اور ہم یہ مثالیں لوگوں کے لیے بیان فرماتے ہیں تاکہ وہ سوچیں ۔ (الحشر: 21)

قرآن مجید نے بھی بہت زیادہ مثالوں سے سمجھایا اللہ تعالی ہمیں قرآن وحدیث دونوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین