اللہ پاک نے انسانوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا ،انسان کی تعلیم و تربیت کے لیے اپنے انبیاء کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا پھر سب سے آخر میں تمام انسانیت کی تعلیم و تربیت لے لیے اپنے پیارے حبیب سب سے آخری نبی محمد ﷺ کو معلِّم کائنات بنا کر بھیجا۔ رسول کریم ﷺ کا انداز تربیت کیسا کمال کا تھا کہ کبھی پریکٹیکل کر کے دیکھاتے ہیں اور صحابہ کرام سے فرماتے ہیں یوں کرو ۔کبھی آپ چند الفاظ میں اس طرح تربیت فرماتے گویا کے سمندر کوزے میں بند فرما دیتے۔اور کبھی انسانی فطرت کے مطابق امثلہ کے ذریعے تربیت فرماتے کہ انسان اس چیز کو جلدی قبول کرتا ہے جو عقل و سمجھ میں آتی ہے آئیں ہم ان احادیث کریمہ کو پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں جن میں حضور ﷺ نے پیاری پیاری مثالوں کے ذریعے تربیت فرمائی ہے :

(1) بادشاہ کی چراگاہ : عَنْ عَامِرٍ قَالَ:سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِیْرٍ یَقُوْلُ:سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ اَلْحَلَالُ بَیِّنٌ وَالْحَرَامُ بَیِّنٌ وَبَیْنَھُمَا مُشْتَبِھَاتٌ لَا یَعْلَمُھَا کَثِیْرٌ مِنَ النَّاسِ فَمَنِ اتَّقَی الْمُشَبَّھَاتِ اِسْتَبْرَأَ لِدِیْنِہٖ وَ عِرْضِہٖ وَمَنْ وَّقَعَ فیِ الشُّبُھَاتِ کَرَاعٍ یَرْعٰی حَوْلَ الْحِمٰی یُوْشِکُ اَنْ یُّوَاقِعَہٗ اَلَا وَاِنَّ لِکُلِّ مَلِکٍ حِمًی اَلَا اِنَّ حِمَی اللہ فِیْ اَرْضِہٖ مَحَارِمُہٗ اَلَا وَاِنَّ فِی الْجَسَدِ مُضْغَۃً اِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ وَاِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ اَلَا وَھِیَ الْقَلْبُ (صحیح البخاری،کتاب الایمان،باب فضل من استبرأ لدینہ،الحدیث:۵۲ ، ج۱،ص۳۳)

ترجمہ:عامر (شعبی) سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ و ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ حلال ظاہر ہے اور حرام ظاہر ہے اور ان دونوں کے درمیان کچھ مُشْتَبَہ چیزیں ہیں جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے تو جو کوئی شبہ کی چیزوں سے بچ گیا اس نے اپنے دین اور اپنی آبرو کو بچا لیا اور جو کوئی ان شبہ کی چیزوں میں پڑگیا تو اس کی مثال اس چرواہے کی ہے جو بادشاہ کی محفوظ چراگاہ کے آس پاس اپنے جانوروں کو چرائے تو ہوسکتا ہے کہ وہ جانور شاہی چراگاہ میں داخل ہوجائیں ۔سُن لو ! ہر بادشاہ کی ایک ’’حمی‘‘ (محفوظ و مخصوص چراگاہ) ہو تی ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ’’حمی‘‘ اس کی زمین میں وہ چیزیں ہیں جن کو اس نے حرام ٹھہرایا ہے ۔خبردار! بدن میں ایک گوشت کی بوٹی ایسی ہے کہ اگر وہ درست ہے تو سارا بدن درست ہے اور اگر وہ فاسد ہوگئی تو سارا بدن بگڑ گیا سن لو! وہ دل ہے۔

سبحان اللہ حضوراکرم ﷺ یہ ایک مثال دے کر سمجھاتے ہیں کہ جس طرح ہر بادشاہ کی ایک محفوظ و مخصوص چراگاہ ہوتی ہے جس میں کسی جانور کو چرانے کی اجازت نہیں ہوتی اور اس کو ’’ حِمیٰ‘‘کہتے ہیں اسی طرح بادشاہوں کے بادشاہ اللہ تعالیٰ نے بھی کچھ چیزوں کو حرام ٹھہرا کر ہر شخص کو منع فرمادیاہے کہ خبردار کوئی اس کے قریب نہ جائے ۔تو یہ حرام چیزیں گویا اللہ تعالیٰ کی ’’حِمیٰ‘‘ ہیں کہ جس طرح بادشاہوں کی حمی میں کسی کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوتی اسی طرح اللہ تعالیٰ کی حرام کی ہوئی چیزوں کے پاس کسی کو پھٹکنے کی اجازت نہیں ہے ۔خلاصہ یہ ہے کہ مسلمان کو حرام اورمُشْتَبَہ دونوں قسم کی چیزوں سے بچنا اور پرہیز کرنا ضروری ہے۔

(2) زندہ اور مردہ : وَعَنْ أَبِيْ مُوْسٰى قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہ ِ صَلَّى اللہ ُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَثَلُ الَّذِيْ يَذْكُرُ رَبَّهٗ وَالَّذِيْ لَا يَذْكُرُ مَثَلُ الْحَيِّ وَالْمَيِّتِ روایت ہے حضرت ابو موسیٰ سے فرماتے ہیں : فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی مثال جو رب کا ذکر کرے اور جو نہ کرے زندہ و مردہ کی سی ہے ۔(مسلم،بخاری)

یعنی جیسے زندہ کا جسم روح سے آباد ہے مردہ کا غیر آباد،ایسے ہی ذاکر کا دل ذکر سے آباد ہے غافل کا دل ویران یا جیسے شہروں کی آبادی زندوں سے ہے مردوں سے نہیں ایسے ہی آخرت کی آبادی ذاکرین سے ہے غافلین سے نہیں،یا جیسے زندہ دوسروں کو نفع و نقصان پہنچاسکتا ہے مردہ نہیں،ایسے اللہ کے ذاکر سے نفع و نقصان خلق حاصل کرتی ہے غافل سے نہیں یا جیسے مردے کو کوئی دوا یا غذا مفید نہیں ایسے ہی غافل کو کوئی عمل وغیرہ مفید نہیں اللہ کا ذکر کرو پھر دوسرے اعمال،ذاکر مرکر بھی جیتا ہے غافل زندہ رہ کر بھی مردہ ہے ۔(کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:3 , حدیث نمبر:2263 )

(3) مشک سے بھرا تھیلا: وَعَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہ ِ صَلَّى اللہ ُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَعَلَّمُوا الْقُرْآنَ فَاقْرَؤُوْهُ، فَإِنَّ مَثَلَ الْقُرْآنِ لِمَنْ تَعَلَّمَ فَقَرَأَ وَقَامَ بِهٖ كَمَثَلِ جِرَابٍ مَحْشُوٍّ مِسْكًا، تَفُوْحُ رِيْحُهٗ كُلَّ مَكَانٍ، وَمَثَلُ مَنْ تَعَلَّمَهٗ فَرَقَدَ وَهُوَ فِيْ جَوْفِهٖ كَمَثَلِ جِرَابٍ أُوكِئَ عَلٰى مِسْكٍ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَهْ

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں : فرمایا رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قرآن سیکھو پھر اسے پڑھا کرو کیونکہ جو قرآن سیکھے اور اس کی قراءت کرے اور اس پرعمل کرے اس کی مثال اس تھیلے کی سی ہے جس میں مشک بھرا ہو جس کی خوشبو ہر جگہ مہک رہی ہو اور جو اسے سیکھے پھر سویا رہے اس طرح کہ اس کے سینے میں قرآن ہو وہ اس تھیلے کی طرح ہے جو مشک پر سربند کردیا گیا ہو (ترمذی،نسائی،ابن ماجہ)

سبحان اللہ اس حدیث پاک میں باعمل حافظ قرآن کی مثال مشک کے ایسے تھیلے سے دی جس کی خوشبو پھیل رہی ہے اور بے عمل کی مثال مشک کے اس تھیلے سے جس کا منہ بند ہے کے اس کے اندر خوشبو تو ہے مگر باہر آنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔

اللہ پاک ہمیں رسول کریم ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے ۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ