ساری کائنات میں افضل ترین مقام مکّہ معظمہ اور مدینہ منورہ ہیں۔ یہ وہ حَسِین مراکز ہیں جن کی طرف ہمیشہ سے عِشق و مَستی کے قافلے رَواں دَواں رہے ہیں۔ یہ ایسے مبارَک مقام ہیں جن کو اللہ پاک نے سعادتوں اور برکتوں کا گہوارہ بنایا ہے۔ قرآنِ پاک میں بہت سی آیات میں ذکرِ مکّہ مکرمہ اور مَدینہ منورہ موجود ہے،ان میں سے چند یہاں نقل کی جاتی ہیں۔

قرآنِ کریم میں ذکرِ مکّہ مكرمہ:

1- سورۂ ال عمران آیت 96: ترجمۂ کنز الایمان:بے شک سب میں پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کو مقرر ہوا وہ ہے جو مکّہ میں ہے برکت والا اور سارے جہان کا رہنما۔

تفسیر صِراط الجنان : یہودیوں نے کہا تھا کہ ہمارا قِبلہ یعنی بیت المقدس ،کعبہ سے افضل ہے کیوں کہ یہ گزشتہ انبیا علیھم السلام کا قِبلہ رہا ہے، نیز یہ خانہ کعبہ سے پرانا ہے۔ ان کے رد میں یہ آیتِ کریمہ اتری۔ (تفسیرخازن، ال عمران، تحت الآیۃ : 96، 274/1)

2- سورۃ النمل آیت 91: ترجمۂ کنزالایمان: مجھے تو یہی حکم ہوا ہے کہ پوجوں اس شہر کے رب کو جس نے اسے حرمت والا کیا ہے اور سب کچھ اسی کا ہے۔

تفسیر صِراط الجنان: قیامت کے ابتدائی واقعات اور قیامت قائم ہونے کے بعد کے چند احوال بیان کرنے کے بعد اللہ پاک نے اپنے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے فرمایا:آپ فرما دیجیے : مجھے تو یہی حکم ہوا ہے کہ میں اس شہرِ مکّہ کے رب کی عبادت کروں اور اپنی عبادت اس رب کے ساتھ خاص کروں جس نے اسے حرمت والا بنایا ہے کہ وہاں نہ کسی انسان کا خون بہایا جائے، نہ کوئی شکار مارا جائے اور نہ وہاں کی گھاس کاٹی جائے اور ہر شے حقیقی طور پر اسی کی ملکیت ہے اور اس ملکیت میں اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے یہ حکم ہوا ہے کہ فرمانبرداروں میں سے رہوں۔ آیت میں مکّہ مكرمہ کا ذکر اس لیے ہوا ہے کہ وہ نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا وطن اور وحی نازل ہونے کی جگہ ہے۔ (تفسیرخازن، النمل، تحت الآیۃ: 91، 422/3)

3- سورہ التین آیت 3: ترجمۂ کنزالایمان :اور اس اَمان والے شہر کی۔

تفسیر صِراط الجنان: یعنی اور اس اَمن والے شہر مکّہ مکرمہ کی قسم ! امام عبد اللہ بن اَحمد نسفی رحمۃ اللہ علیہفرماتے ہیں:انجیر، زیتون، طور سینا اور مکّہ مکرمہ کی قسم ذِکر فرمانے سے ان بابرکت مقامات کی عظمت و شرافت ظاہر ہوئی اور انبیا علیہم الصلواة والسلام اور اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے ان مقامات پر رہنے کی وجہ سے ظاہر ہونے والی خیر و برکت واضع ہوئی، چنانچہ جس جگہ انجیر اور زیتون اگتا ہے وہ حضرت ابرہیم علیہ السلام کی ہجرت گاہ ہے اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کی ولادت اور پرورش بھی اسی جگہ ہوئی۔ طور وہ جگہ ہے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ندا دی گئی اور مکّہ مکرمہ میں تاجدارِ رِسالت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی وِلادت ہوئی، اسی شہر میں آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اپنی نبوت و رِسالت کا اعلان فرمایا اور اسی شہر میں خانہ کعبہ ہے( جس کی طرف منہ کر کے پوری دنیا کے مسلمان نماز پڑھتے ہیں)۔ ( مدارک، التین، تحت الآیۃ: 3، ص1360)

قرآنِ پاک میں ذکرِ مدینہ منورہ:

1- سورۃالاحزاب آیت 13:ترجمہ ٔکنزالایمان:اور جب ان میں سے ایک گروہ نے کہا :اے مدینہ والو!

تفسیر صِراط الجنان: اس آیت میں یثرب کا لفظ ذکر ہوا، اس کے بارے میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہفرماتے ہیں:قرآنِ عظیم میں لفظ یثرب آیا وہ رب العزت جَل وَ عَلَا نے منافقین کا قول ذکر فرمایا ہے۔ یثرب کا لفظ فساد و ملامت سے خبر دیتا وہ ناپاک اسی طرف اشارہ کر کے یثرب کہتے، اللہ پاک نے ان پر رد کے لیے مدینہ طیبہ کا نام طابہ رکھا،حضورِ اَقدس،سَرورِ عالَم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں: وہ اسے یثرب کہتے ہیں اور وہ تو مدینہ ہے۔ (بخاری، کتاب فضائل المدینہ باب فضل المدینہ . . . . . . . . الخ، 617/1، الحدیث: 1871، مسلم، کتاب الحج، باب المدینہ تنفی شرارھا، ص717، الحدیث: 488(1382))اور فرماتے ہیں: بے شک اللہ پاک نے مدینہ کا نام طابہ رکھا۔

2- سورۃ التوبہ آیت 101: ترجمۂ کنزالایمان: اور تمہارے آس پاس کے کچھ گنوار منافق ہیں اور کچھ مدینہ والے۔

تفسیر صِراط الجنان: اس سے پہلی آیات میں اللہ پاک نے مدینے کے منافقین کے حالات بیان فرمائے، اس کے بعد دیہاتیوں میں جو منافقین تھے ان کا حال بیان فرمایا، پھر بیان فرمایا : اکابر مؤمنین وہ ہیں جو مہاجرین اور انصار میں سب سے پہلے ایمان قبول کرنے والے ہیں اور اس آیت میں بیان فرمایا:مدینہ منورہ کی آس پاس کی بستیوں میں بھی منافقین کی ایک جماعت ہے اگرچہ تم ان کے نفاق کو نہیں جانتے۔(تفسیر کبیر، التوبہ تحت الآیۃ: 101، 103/6) تفسیر صراط الجنان . . . . . . . . . . . مکتبۃ المدینہ کراچی

یااللہ پاک!ہمیں مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ کی عِشق و مستی سے لبریز باادب حاضریاں نصیب فرما۔ آمین بجاہِ خاتم النبیین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم۔