مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ دونوں ہی نہایت قابلِ احترام اور
لائقِ تعظیم مقامات ہیں۔ان کے مقام و مرتبے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے
کہ جو فضائل و کمالات اللہ پاک نے انہیں عطا کئے وہ کسی اور شہر کے حصے میں نہ آئے۔
ایسا کیوں نہ ہو کہ مکۂ مکرمہ میں مسلمانوں کی عقیدتوں اور محبتوں کا مرکز بیت
اللہ شریف موجود ہے۔ جس کی محبت اور شوقِ زیارت میں ہر مسلمان کا دل دھڑکتا ہے۔ جبکہ
مدینہ منورہ میں سرکارِ دو عالم، نور مجسم،شاہ آدم و بنی آدم، رسولِ محتشم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا برکتیں
لٹاتا اور نور برساتا مزارِ پرانوار موجود
ہے۔
الحمد للہ یہی وہ مقدس مقامات ہیں جن کا ذکر آیاتِ قرآنیہ میں
بھی موجود ہے۔ چنانچہ پارہ 4 سورہ اٰلِ عمران کی آیت نمبر
96 میں اللہ پاک کا فرمانِ عظمت نشان ہے :اِنَّ
اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ
بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّ هُدًى لِّلْعٰلَمِیْنَۚ(۹۶) ترجمۂ کنز العرفان: بیشک
سب سے پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کے لئے بنایا گیا وہ ہے جو مکہ میں ہے برکت والا
ہے اور سارے جہان والوں کے لئے ہدایت ہے۔ صدر الافاضل حضرت علامہ مولانا سید مفتی نعیم الدین مراد
آبادی رحمۃُ اللہِ علیہ اس آیتِ کریمہ
کے تحت فرماتے ہیں کہ اس میں بتایا گیا ہے کہ سب سے پہلا مکان جس کو اللہ پاک نے طاعت
و عبادت کے لئے مقرر کیا، نماز کا قبلہ، حج اور طواف کا موضع یعنی مقام بنایا، جس
میں نیکیوں کے ثواب زیادہ ہوتے ہیں وہ کعبہ معظمہ ہے، جو مکہ معظمہ میں واقع ہے۔(خزائن
العرفان، ص126)
پارہ 30 سورۂ بلد کی آیت نمبر 1 اور2 میں ارشاد خداوندی ہے: لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا
الْبَلَدِۙ(۱) وَ
اَنْتَ حِلٌّۢ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۲) ترجمۂ کنز الایمان: مجھے اس شہر کی قسم کہ اے محبوب! تم
اس شہر میں تشریف فرما ہو۔
سبحان اللہ مکہ مکرمہ کی شان کس قدر ارفع و اعلیٰ ہے کہ
اللہ پاک نے قرآنِ پاک میں اس کی قسم ارشاد فرمائی۔تفسیرِ کبیر میں ہے سورۂ بلد
کی دوسری آیت میں گویا کہ ارشاد فرمایا
کہ اے پیارے حبیب! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم، مکہ مکرمہ کو یہ عظمت آپ کے وہاں تشریف فرما ہونے کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے۔( تفسیرکبیر، البلد، تحت الآیۃ: 2،
11 / 164) اعلی حضرت فرماتے ہیں:
وہ خدا نے ہے مرتبہ تجھ کو
دیا نہ کسی کو ملے نہ کسی کو ملا
کہ کلامِ مجید نے کھائی شہا
ترے شہر و کلام و بقا کی قسم
اسی طرح قرآنِ کریم میں مدینہ منورہ کا ذکر بھی موجود ہے
چنانچہ پارہ 21،سورہ احزاب کی آیت نمبر 60 میں منافقین اور جھوٹی خبریں پھیلانے
والوں کے متعلق ارشاد ہوا: لَىٕنْ لَّمْ
یَنْتَهِ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ وَّ
الْمُرْجِفُوْنَ فِی الْمَدِیْنَةِ لَنُغْرِیَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا
یُجَاوِرُوْنَكَ فِیْهَاۤ اِلَّا قَلِیْلًا ﳝ(۶۰) ترجمۂ کنز العرفان: منافق
اوروہ کہ جن کے دلوں میں مرض ہے اور وہ لوگ جو مدینے میں جھوٹی خبریں پھیلانے والے
ہیں اگر باز نہ آئے تو ضرور ہم تمہیں ان کے خلاف اکسائیں گے پھر وہ مدینہ میں
تمہارے پاس نہ رہیں گے مگر تھوڑے دن۔
سورہ منافقون کی آیت نمبر 8 میں اللہ پاک نے منافقین کا رد
کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: یَقُوْلُوْنَ
لَىٕنْ رَّجَعْنَاۤ اِلَى الْمَدِیْنَةِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْهَا
الْاَذَلَّؕ-وَ لِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَ لِرَسُوْلِهٖ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ
لٰكِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ۠(۸) ترجمۂ کنز العرفان: وہ
کہتے ہیں : قسم ہے اگر ہم مدینہ کی طرف لوٹ کر گئے تو ضرور جو بڑی عزت والا ہے وہ
اس میں سے نہایت ذلت والے کو نکال دے گا حالانکہ عزت تو اللہ اور اس کے رسول اور
مسلمانوں ہی کے لئے ہے مگر منافقوں کو معلوم نہیں ۔
تفسیرِ صراط الجنان میں ہے کہ منافق
کہتے ہیں : اگر ہم اس غزوہ سے فارغ ہونے کے بعد مدینہ کی طرف لوٹ کر گئے تو ضرور
جو بڑی عزت والا ہے وہ اس میں سے نہایت
ذلت والے کو نکال دے گا۔ منافقوں نے اپنے
آپ کو عزت والا کہا اور مسلمانوں کو ذلت والا ،اللہ پاک ان کا رد کرتے ہوئے
ارشاد فرماتا ہے کہ عزت تو اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کے لئے ہے مگر منافقوں کو معلوم نہیں ،اگر وہ یہ بات جانتے تو ایسا
کبھی نہ کہتے ۔( صراط الجنان)
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں بار بار حرمین طیبین کی با ادب
حاضری نصیب فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔