مکہ مکرمہ اور
مدینہ منورہ حجازِمقدس کے دو قدیم شہر ہیں، جو اسلام کا مرکز اور نہایت افضل واعلیٰ
ہیں، مکہ مکرمہ جائے ولادت حضور صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم
ہے اور مدینہ منورہ جائے مدفن ِسرکار صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم
ہے۔اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں:قبرِ انور رسول صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم
کعبہ معظمہ بلکہ عرش سے بھی افضل ہے اور کعبہ معظمہ مدینہ طیبہ سے افضل ہے، مدینہ
طیبہ علاوہ قبر ِاطہر اور مکہ مکرمہ علاوہ خانہ کعبہ کی افضلیت میں اختلافِ علما
ہے، جمہور کے نزدیک مکہ معظمہ افضل ہے۔(فتاوی رضویہ، جلد 10، صفحہ
711)اور
عشاق کی نگاہ میں مدینہ افضل ہے۔
ذکرِ
مکہ:
قرآنِ کریم میں
جابجا مکہ مکرمہ کے مقدس مقام کا تذکرہ ہے، دو جگہ ربّ کریم نے اس محترم شہر کی
قسم یاد فرمائی اور ارشاد فرمایا:لَآقْسِمُ بِھٰذَاالْبَلَدِْ۔ترجمۂ
کنز العرفان: مجھے اِس شہر کی قسم ۔(پ30،البلد:1) مزید فرمایا: وَھٰذَاالْبَلَدِالْاَمِیْنِ۔ترجمۂ
کنزالعرفان:اور اس امن والے شہر کی قسم۔(پارہ 30، والتین:3)
امام عبداللہ
بن احمد نسفی رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں:مکہ مکرمہ کی قسم ذکر فرمانے سے اس بابرکت مقام کی عظمت و شرافت ظاہر
ہوئی اور نبی پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے
اس مقام پر رہنے کی وجہ سے ظاہر ہونے والی خیروبرکت واضح ہوئی۔(تفسیر
مدارک، صفحہ 1360)
ربّ پاک نے
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی
تعمیر کعبہ کے وقت مکہ مکرمہ کے بارے میں مانگی جانے والی دعا کا ذکر کرتے ہوئے
فرمایا:وَ
اِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا وَّ ارْزُقْ اَهْلَهٗ مِنَ الثَّمَرٰتِ مَنْ
اٰمَنَ مِنْهُمْ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ؕترجمۂ کنزالایمان:اور
جب عرض کی ابراہیم نے کہ اے ربّ میرے اس شہر کو امان والا کردے اور اس کے رہنے
والوں کو طرح طرح کے پھلوں سے روزی دے جو ان میں سے اللہ اور پچھلے دن پر ایمان
لائیں۔(پارہ
1، سورہ بقرہ، آیت 126)
حضرت ابراہیم علیہ
السلام
کی دعا مقبول ہوئی، مکہ مکرمہ میں نہ کسی کا خون بہایا جا سکتا ہے، نہ شکار کیا جا
سکتا ہے اور نہ ہی وہاں کی گھاس کاٹی جا سکتی ہے،نیز دنیا بھر کے پھل اور کھانے یہاں
پر بکثرت ملتے ہیں، ربّ کریم نے مکہ مکرمہ کے حرمت والا ہونے کا ایک مقام پر ذکر
فرمایا :اِنَّمَاۤ
اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ رَبَّ هٰذِهِ الْبَلْدَةِ الَّذِیْ حَرَّمَهَا۔ ترجمۂ
کنزالعرفان:مجھے تو یہی حکم ہوا ہے کہ میں اس شہر( مکہ) کے
ربّ کی عبادت کروں، جس نے اسے حرمت والا بنایا ہے۔(پارہ 20،
نمل:91)اللہ
پاک نے یہاں مکہ مکرمہ کا ذکر اس لئے فرمایا کیونکہ یہ نبی کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا وطن اور وحی نازل ہونے کی جگہ ہے۔(تفسیر
خازن، جلد 3، صفحہ 422)
ذکرِ
مدینہ:
قرآنِ پاک میں
متعدد مقامات پر مدینہ واہلِ مدینہ کا ذکر
موجود ہے، ایک مقام پر مدینہ منورہ کی مسجد کا ذکر فرمایا:لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَى
التَّقْوٰى مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِیْهِ ؕ۔ترجمۂ
کنزالعرفان:بیشک وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے
دن سے پرہیز گاری پر رکھی گئی، وہ اس کا حق دار ہے کہ تم اس میں کھڑے ہو۔(پارہ
11، توبہ: 108)
اس مسجد سے
مراد اسلام کی پہلی مسجد، مسجدِ قبا ہے اور مفسرین کا ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے
مسجد مدینہ مراد ہے۔(تفسیر مدارک، صفحہ 455)ایک جگہ ربّ
کریم نے مسلمانانِ مدینہ، انصار صحابہ کرام علیہم الرضوان کا
شہر مدینہ کو آقا کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی
آمد سے پہلے ہی مسکن بنانے کا ذکر فرمایا ہے، ارشاد فرمایا:وَ الَّذِیْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ
وَ الْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ۔ترجمۂ کنزالعرفان:اور وہ جنہوں نے ان(مہاجرین)سے
پہلے اس شہر کو اور ایمان کو ٹھکانہ بنالیا۔(پارہ 28،
الحشر: 9)
معلوم ہوا!جس
جگہ کو ربّ کے محبوب بندوں سے نسبت ہو جائے، ربّ اس جگہ کا ذکر بھی قرآن میں
فرماتا ہے، ایک مقام پر اللہ پاک نے فرمایا:یہ مقدس زمین ناپاک باطن والوں کے لائق
نہیں ہے،ربّ کریم جلد منافقوں سے مدینہ طیبہ کو پاک فرمائے گا،چنانچہ فرمایا:لَنُغْرِیَنَّكَ بِهِمْ
ثُمَّ لَا یُجَاوِرُوْنَكَ فِیْهَاۤ اِلَّا قَلِیْلًا۔ترجمۂ کنز العرفان:ضرور
ہم تمہیں ان کے خلاف اکسائیں گے، پھر وہ مدینہ میں تمہارے پاس نہ رہیں گے، مگر
تھوڑے دن۔(پارہ
22، سورہ احزاب، آیت60)
معلوم ہوا!اچھی
جگہوں پر بھی گمراہ لوگ ہوتے ہیں، کسی کا کسی مقدس جگہ پر رہنا اس کے اچھا ہونے کی
دلیل نہیں ہے، نیز ایسے لوگ جلد یا بدیر اس جگہ سے نکال دیئے جائیں گے۔ اللہ پاک
ہمیں مکہ مدینہ کی با ادب، با ذوق، باشوق،
مقبول حاضری عطا فرمائے۔آمین