قرآنِ کریم میں مکہ اور مدینہ کا ذکر ہوا، بلکہ اللہ پاک نے ان کی فضیلت
کو ہی قرآن میں ارشاد فرمایا، مکہ مکرمہ کی
قسم ارشاد فرمائی اور اسے حرم اور امن والی جگہ بنایا اور اس میں موجود مسجد کو
پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے قبلہ بنایا اور مدینہ کے بارے میں فرمایا :یہاں حاضر
ہونا گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ ہے، درحقیقت یہ مکہ اور مدینہ پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے نسبت رکھنے
والے شہر ہیں اور قرآن نعتِ مصطفے ، تو ان
کا ذکر تو ہونا ہی تھا، خیر اب آیات اور ان کی کچھ تفسیر۔
مکہ
مکرمہ کی قسم ارشاد فرماتے ہوئے اللہ کریم نے فرمایا:آیت:لَآقْسِمُ
بِھٰذَاالْبَلَدِ،وَاَنْتَ حِلٌّ بِھٰذَا الْبَلَدِ۔ترجمۂ
کنز الایمان: مجھے اِس شہر کی قسم کہ اے محبوب تم اِس شہر میں تشریف فرما ہو۔
مفسرین
کرام کا اس بات پر اجماع (اتفاق) ہے کہ اس آیتِ مبارکہ میں اللہ پاک نے جس شہر کی قسم ذکر فرمائی، وہ
مکہ شریف ہے۔(اسلامی بیانات، جلد 6، صفحہ 163)
اللہ
پاک کا اپنی ذات و صفات کے علاوہ کسی اور چیز کی قسم یاد فرمانا اس چیز کی فضیلت
ظاہر کرنے کے لئے اور دیگر چیزوں میں سے ممتاز کرنے کے لئے ہے، جو لوگوں کے درمیان
موجود ہیں، تاکہ لوگ جان سکیں کہ یہ چیز انتہائی عظمت و فضیلت والی ہے۔(صراط الجنان، جلد 10، ص 679)اور مکہ میں موجود
خانہ کعبہ کا حج کرنے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:وَ لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًا ؕ۔ترجمۂ کنزالعرفان:اور اللہ کے لئے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا فرض ہے، جو اس تک
پہنچنے کی طاقت رکھتا ہے۔(سورۃ ال عمران:97) اور اس میں موجود مقامِ ابراہیم کے بارے میں مسلمانوں کو حکم دیا:وَ
اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى ؕ۔ترجمۂ
کنز العرفان: اور اے مسلمانوں! تم ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کا مقام
بناؤ۔(سورہ بقرہ:125)اور اس میں موجود مسجد کو
پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے قبلہ بناتے ہوئے ارشاد فرمایا:وَ حَیْثُ مَا
كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗ ؕ۔
ترجمۂ کنزالعرفان:اور اے مسلمانو! تم جہاں کہیں ہو، اپنا منہ اسی کی طرف کر لو۔(البقرہ:144)(یہ تمام صراط الجنان جلد 10، صفحہ 678 سے لیا گیا ہے
خلاصہ)
اس
سے معلوم ہوا!مکہ مکرمہ کی فضیلت ایسی ہے کہ اس میں موجود کعبہ معظمہ کو مسلمانوں
کا قبلہ بنایا گیا، اس کا حج ہر مسلمان پر فرض کر دیا گیا اور تفسیر صراط الجنان
جلد 2،صفحہ 191 پر ہے:کبیرہ گناہ توبہ ہی سے معاف ہوتے ہیں، البتہ حجِ مقبول پر اس کی بشارت ہے، یعنی کبیرہ گناہوں کے معاف
ہونے کی اور حج مکمل ذکرِ الٰہی ہے اور مدینہ کے بارے میں یوں اللہ پاک نے فرمایا:وَ لَوْ اَنَّهُمْ
اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ
لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا۔ترجمۂ
کنزالعرفان:اور اگر وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں اور اے محبوب آپ کے پاس حاضر ہو کر
خدا سے بخشش چاہیں اور رسول ان کی مغفرت مانگیں تو خدا کو توبہ قبول کرنے والا
مہربان پائیں۔(سورۃ النساء:64)
حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے عالم حیات ظاہری میں حضور(یعنی حاضر ہونا) ظاہر تھا،اب حضور(حاضر ہونا) مزار پر انوار ہے۔(فتاویٰ رضویہ، جلد 15،654)
صحابہ
کرام علیہم الرضوان کے دور سے ہی یہ معمول رہا ہے کہ آپ کی حیات ظاہری کے بعد آپ کے
مزار پر حاضر ہو کر مشکلات کا حل چاہتے تھے، اپنی مغفرت ونجات کی التجا کرتے تھے۔(صراط الجنان سے خلاصہ، جلد 2، صفحہ 234)
مدینے
کی فضیلت سمجھنے کے لئے بس اتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ یہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی آرام گاہ اور
اس سے بڑھ کر کون سی فضیلت تھی جو مدینہ کو حاصل ہوتی۔
اس در کے حضوری ہی عصیاں کی دوا ٹھہری ہے زہر ِمعاصی کا طیبہ ہی شفا خانہ(سامان بخشش)
اعلیٰ
حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ
نے بھی فرمایا :
مجرم بلائے آئے ہیں جاءوک ہے گواہ پھر
ردّ ہو کب یہ شان کریموں کے در کی ہے