قرآن ِکریم میں متعدد مقامات پر ذکرِ مکہ و مدینہ کیا گیا ہے۔ارشادِ باری ہے:

1:اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّ هُدًى لِّلْعٰلَمِیْنَ ۚ (پ،ال عمرن:69)ترجمۂ کنز العرفان:بیشک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کے لئے بنایا گیا وہ ہے جو مکہ میں ہے برکت والا ہے اور سارے جہان والوں کے لئے ہدایت ہے۔

2:وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهِیْمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا ۔(پ13، ابرٰھیم:35)ترجمۂ کنز العرفان:اور یاد کرو جب ابراہیم نے عرض کی: اے میرے رب! اس شہر کو امن والا بنادے۔

3:اِنَّمَاۤ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ رَبَّ هٰذِهِ الْبَلْدَةِ الَّذِیْ حَرَّمَهَا (پ20، النمل:91)ترجمۂ کنز العرفان:مجھے تو یہی حکم ہوا ہے کہ میں اس شہر (مکہ) کے رب کی عبادت کروں جس نے اسے حرمت والا بنایا ہے۔

اس آیت میں مکہ مکرمہ کا ذکر اس لئے ہواہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا وطن اور وحی نازل ہونے کی جگہ ہے۔(تفسیر صراط الجنان، النمل، تحت الآیۃ:91 ملتقطاً)

4:وَ هٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِیْنِ ۙ (پ30، التین:3)ترجمۂ کنز العرفان: اور اس امن والے شہر کی(قسم)۔

5:لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِ ۙ وَ اَنْتَ حِلٌّۢ بِهٰذَا الْبَلَدِ ۙ (پ30، البلد:1-2)ترجمۂ کنز العرفان:مجھے اِس شہر کی قسم جبکہ تم اس شہر میں تشریف فرما ہو۔

مفسرینِ کرام کا اس بات پر اجماع(اتفاق) ہے کہ اس آیتِ مبارکہ میں اللہ پاک نے جس شہر کی قسم ذکر فرمائی ہے وہ مکہ شریف ہے۔اسی آیتِ مبارکہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اللہ پاک کے آخری نبی، محمد عربی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی جناب میں یوں عرض گزار ہوئے:یا رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم!میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں! آپ کی فضیلت اللہ پاک کےہاں اتنی بلند ہے کہ آپ کی حیاتِ مبارکہ کی ہی اللہ کریم نے قسم ذکر فرمائی ہے نہ کہ دوسرے انبیائے کرام علیہم الصلوة و السلام کی اور آپ کا مقام و مرتبہ اس کے ہاں اتنا بلند ہے کہ اس نےلَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ کے ذریعے آپ کے مبارک قدموں کی خاک کی قسم ذکر فرمائی ہے۔(اسلامی بیانات، 6/163 بحوالہ شرح زرقانی علی المواہب،8/ 463- فتاویٰ رضویہ،5/ 556)

6:وَ مِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ وَ مِنْ اَهْلِ الْمَدِیْنَةِ مَرَدُوْا عَلَى النِّفَاقِ (پ11،التوبۃ:101)ترجمۂ کنز العرفان: اور تمہارے آس پاس دیہاتیوں میں سے کچھ منافق ہیں اور کچھ مدینہ والے (بھی) وہ منافقت پر اڑگئے ہیں۔

اس آیت سے معلوم ہوا !کسی کے اچھا یا بُرا ہونے کا فیصلہ صرف جگہ سے نہیں کیا جا سکتا جیسے مدینہ منورہ میں رہنے کے باوجود کچھ لوگ منافق اور لائقِ مذمت ہی رہے، ہاں !اگر عقیدہ صحیح ہے تو پھر جگہ کی فضیلت بھی کام دیتی ہے۔ (تفسیر صراط الجنان، التوبۃ، تحت الآیۃ:101)

7:مَا كَانَ لِاَهْلِ الْمَدِیْنَةِ وَ مَنْ حَوْلَهُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ اَنْ یَّتَخَلَّفُوْا عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰهِ وَ لَا یَرْغَبُوْا بِاَنْفُسِهِمْ عَنْ نَّفْسِهٖؕ۔ (پ11، التوبۃ:120)ترجمۂ کنز العرفان: اہلِ مدینہ اور ان کے اِرد گرد رہنے والے دیہاتیوں کے لئے مناسب نہیں تھا کہ وہ اللہ کے رسول سے پیچھے بیٹھے رہیں اور نہ یہ کہ اُن کی جان سے زیادہ اپنی جانوں کو عزیز سمجھیں۔

8:لَىٕنْ لَّمْ یَنْتَهِ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ وَّ الْمُرْجِفُوْنَ فِی الْمَدِیْنَةِ لَنُغْرِیَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا یُجَاوِرُوْنَكَ فِیْهَاۤ اِلَّا قَلِیْلًا (پ22،الاحزاب:60)ترجمۂ کنز العرفان: منافق اوروہ کہ جن کے دلوں میں مرض ہے اور وہ لوگ جو مدینے میں جھوٹی خبریں پھیلانے والے ہیں اگرباز نہ آئے تو ضرور ہم تمہیں ان کے خلاف اکسائیں گے پھر وہ مدینہ میں تمہارے پاس نہ رہیں گے مگر تھوڑے دن۔

اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو منافق ہیں اور وہ لوگ جو فاجر و بدکار ہیں اور وہ لوگ جو مدینے میں اسلامی لشکروں کے متعلق جھوٹی خبریں اڑانے والے ہیں اور یہ مشہور کیا کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو شکست ہوگئی، وہ قتل کر ڈالے گئے، دشمن چڑھا چلا آ رہا ہے اور اس سے ان کا مقصد مسلمانوں کی دل شکنی اور ان کو پریشانی میں ڈالنا ہوتا ہے، اگر یہ لوگ اپنے نفاق،بدکاری اور دیگر حرکتوں سے باز نہ آئے تو ضرور ہم مسلمانوں کو ان کے خلاف کاروائی کرنے کی اجازت دے دیں گے اور مسلمانوں کو ان پر مسلط کردیں گے، پھر وہ مدینہ میں تمہارے پاس تھوڑے دن ہی رہیں گے، پھر ان سے مدینہ طیبہ خالی کرا لیا جائے گا اور وہ لوگ وہاں سے نکال دیئے جائیں گے۔ (تفسیر صراط الجنان، الاحزاب، تحت الآیۃ:60)

9:یَقُوْلُوْنَ لَىٕنْ رَّجَعْنَاۤ اِلَى الْمَدِیْنَةِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْهَا الْاَذَل َّ ؕوَ لِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَ لِرَسُوْلِهٖ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ لٰكِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ ۠(پ28،المنٰفقون:8)ترجمۂ کنز العرفان: وہ کہتے ہیں : قسم ہے اگر ہم مدینہ کی طرف لوٹ کر گئے تو ضرور جو بڑی عزت والا ہے وہ اس میں سے نہایت ذلت والے کو نکال دے گا حالانکہ عزت تو اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کے لیے ہے مگر منافقوں کو معلوم نہیں۔

10:وَ الَّذِیْنَ هَاجَرُوْا فِی اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً ؕ وَ لَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ اَكْبَرُ ۘ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ ۙ (پ14،النحل:41)ترجمۂ کنز العرفان: اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں اپنے گھر بار چھوڑے اس کے بعد کہ ان پر ظلم کیا گیا تو ہم ضرور انہیں دنیا میں اچھی جگہ دیں گے اور بیشک آخرت کا ثواب بہت بڑا ہے۔ کسی طرح لوگ جانتے ۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے: اچھی جگہ سے مراد مدینہ طیبہ ہے جسے اللہ پاک نے ان کے لئے ہجرت کی جگہ بنایا۔ (تفسیر صراط الجنان، النحل، تحت الآیۃ:41)