حافظ ضمیر علی (درجہ ثالثہ جامعۃ المدینہ آفندی ٹاؤن
حیدر آباد،پاکستان)
(1) كَذٰلِكَ
اَرْسَلْنٰكَ فِیْۤ اُمَّةٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهَاۤ اُمَمٌ لِّتَتْلُوَاۡ
عَلَیْهِمُ الَّذِیْۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ ترجَمۂ کنز العرفان:اسی طرح ہم نے تمہیں اس امت میں بھیجا جس سے پہلے کئی
امتیں گزر گئیں تاکہ تم انہیں پڑھ کر سناؤ جو ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی ہے ۔(پ
13،رعد:30)
(2)كَانَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً- فَبَعَثَ
اللّٰهُ النَّبِیّٖنَ مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ۪-وَ اَنْزَلَ مَعَهُمُ
الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِیَحْكُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُوْا فِیْهِؕ ترجَمۂ کنز
العرفان: تمام لوگ ایک دین پر تھے تو اللہ نے انبیاء بھیجے خوشخبری دیتے ہوئے اور
ڈر سناتے ہوئے اور ان کے ساتھ سچی کتاب اتاری تاکہ وہ لوگوں کے درمیان ان کے
اختلافات میں فیصلہ کردے ۔(پ 2،بقرہ:213)
(3) : وَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ
لَكُمُ الْاٰیٰتِؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ(۱۸)ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور اللہ تمہارے لیے آیتیں صاف بیان فرماتا ہے اور اللہ علم
و حکمت والا ہے۔(پ 18،نور:18)
اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں ہے کہ :جسے اللہ پاک نے اپنی رسالت کے لئے منتخب فرمایا
اور اسے ساری مخلوق کی طرف رسول بنا کر بھیجا تاکہ وہ حق کی طرف ان کی رہنمائی
کریں اور انہیں (گناہ کی آلود گی سے) خوب پاکیزہ فرمادیں اور انہیں پاک کرکے خوب صاف ستھرا کردیں ۔
(4):وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا
مُوْسٰى بِاٰیٰتِنَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡىٕهٖ فَقَالَ اِنِّیْ رَسُوْلُ
رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(۴۶)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور بےشک ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کے سرداروں کی
طرف بھیجا تو اس نے فرمایا بےشک میں اس کا رسول ہوں جو سارے جہاں کا مالک ہے ۔(پ 25،زخرف:46)
اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں ہے کہ: اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ و السّلام کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف بھیجا تاکہ آپ انہیں اللہ پاک کی وحدانیّت کا اقرار کرنے اور صرف
اسی کی عبادت کرنے کی دعوت دیں ۔
(5):اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ
شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) ترجمۂ کنز العرفان:بیشک ہم نے تمہیں گواہ اور خوشخبری دینے
والااور ڈر سنانے والا بنا کربھیجا۔(پ 26،فتح :8)اس آیت مبارکہ کی
تفسیر میں ہے کہ: اللہ پاک نے ارشاد
فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم ، بیشک ہم نے آپ کو اپنی امت کے اَعمال اور اَحوال کا
مشاہدہ فرمانے والا بنا کر بھیجا تاکہ آپ قیامت کے دن ان کی گواہی دیں اور دنیا میں ایمان والوں اور اطاعت گزاروں کو جنت کی خوشخبری دینے والااور کافروں ،
نافرمانوں کو جہنم کے عذاب کا ڈر سنانے
والا بنا کربھیجا ہے۔
(6)هُوَ الَّذِیْۤ
اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ
كُلِّهٖؕ-وَ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًاؕ(۲۸)ترجمۂ کنزالعرفان: وہی (اللہ ) ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور
سچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے سب دینوں پر غالب کر دے اور اللہ کافی گواہ ہے۔( پ
26، فتح: 28)اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں ہے کہ : وہی اللہ ہے جس نے اپنے رسول کو
ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے سب دینوں پر غالب کردے خواہ وہ مشرکین کے دین ہوں یا اہل ِکتاب کے۔
(7)اِنِّیْ لَكُمْ
رَسُوْلٌ اَمِیْنٌۙ(۱۴۳)فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِۚ(۱۴۴)ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک میں تمہارے
لیے اللہ کا امانت دار رسول ہوں تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔(پ 19،شعراء:144،143)اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں ہے کہ:حضرت صالح علیہ الصلوٰۃ والسّلام نے قومِ ثمود سے
فرمایا: مجھے اللہ پاک نے تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجا ہے تاکہ میں تمہیں اس کے حکم کی خلاف ورزی کرنے پر اس کے
عذاب سے ڈراؤں اور جس رسالت کے ساتھ اس
نے مجھے تمہاری طرف بھیجا میں اس پر امین
ہوں۔
(10،9،8) لِّتُؤْمِنُوْا
بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ-وَ تُسَبِّحُوْهُ
بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا(۹)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اس کے رسول
پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو اور صبح و شام اللہ کی پاکی بولو ۔(پ
26،فتح:9،8)اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں ہے کہ: اس آیت میں اللہ پاک نے اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو
شاہد،مُبَشِّر اور نذیر بنا کر بھیجنے کے گویا یہ مَقاصِد بیان فرمائے ہیں :
(8): لوگ اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ایمان لائیں ۔
(9): لوگ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم اور توقیر کریں ۔ اس کے بارے میں بعض مفسرین یہ بھی فرماتے ہیں کہ یہاں آیت میں تعظیم و توقیر کرنے کا جو
حکم دیا گیا ہے وہ اللہ پاک کے لئے ہے یعنی تم اللہ پاک کی تعظیم اور توقیر کرو،
البتہ اس سے مراد اللہ پاک کے دین اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم اور توقیر کرنا ہے۔
(10): لوگ صبح و شام اللہ پاک کی پاکی بیان کریں ۔اس مقصد
کے بارے میں مفسرین فرماتے ہیں کہ صبح و شام اللہ پاک کی پاکی بیان کرنے سے
مراد اِن اوقات میں ہر نقص و عیب سے اس کی
پاکی بیان کرنا ہے، یا صبح کی تسبیح سے مراد نمازِ فجر اور شام کی تسبیح سے باقی
چاروں نمازیں مراد ہیں ۔