انبیاعلیہم السلام کائنات کی عظیم ترین ہستیاں اور انسانوں
میں ہیروں موتیوں کی طرح جگمگاتی شخصیات
ہیں۔ جنہیں اللہ پاک نے وحی کے نور سے
روشنی بخشی، حکمتوں کے سر چشمے ان کے دلوں میں جاری فرمائے اور سیرت و کردار کی وہ
بلندیاں عطا فرمائیں جن کی تابانی سے مخلوق کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں۔ یقیناً
اللہ پاک نے انبیاء کرام علیہم السلام کو مبعوث کرنے کے مقاصد رکھے، جو قرآن پاک میں
بھی بیان فرمائے۔ جیسے کہ
(1) اللہ کے حکم سے ان کی اطاعت کی جائے۔ اللہ پاک کا ارشاد
ہے:وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ
بِاِذْنِ اللّٰهِؕ ترجمۂ کنزالعرفان :اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا
مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔(پ 5،نساء:64)
(3،2) یہ ایمان و اطاعت پر لوگوں کو جنت کی بشارت اور کفر و
نافرمانی پر جہنم کی وعید سنا دیں۔وَ
مَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّا مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَۚ-فَمَنْ اٰمَنَ وَ
اَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ(۴۸)ترجمۂ کنزالعرفان: اور ہم رسولوں کواسی حال میں بھیجتے
ہیں کہ وہ خوشخبری دینے والے اور ڈر سنانے والے ہوتے ہیں تو جو ایمان لائیں اور اپنی اصلاح کرلیں تو ان پرنہ کچھ خوف
ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ (پ7،انعام:48)
(7،6،5،4) لوگوں کو
گمراہی سے نکالیں۔هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا
مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ
الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَۗ-وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ
مُّبِیْنٍۙ(۲)ترجَمۂ کنزُالایمان: وہی ہے جس نے اَن پڑھوں میں
انہی میں سے ایک رسول بھیجا کہ ان پر اس کی آیتیں پڑھتے ہیں اور انہیں پاک کرتے ہیں
اور انہیں کتاب اور حکمت کا علم عطا فرماتے ہیں اور بےشک وہ اس سے پہلے ضرور کُھلی
گمراہی میں تھے۔(پ 28،جمعہ:2)
(8) دین اسلام کو دلائل اور قوت دونوں اعتبار سے دیگر ادیان
پر غالب کر دیا جائے۔ هُوَ الَّذِیْۤ
اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ
كُلِّهٖۙ-وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ(۳۳)ترجَمۂ کنزُالعرفان: وہی ہے جس نے اپنا رسول
ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کر دے اگرچہ مشرک
ناپسند کریں ۔(پ 10،توبہ:33)
(9) بارگاہ الٰہی میں لوگوں کے لیے کوئی عذر باقی نہ رہے۔رُسُلًا مُّبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ لِئَلَّا
یَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَى اللّٰهِ حُجَّةٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ
عَزِیْزًا حَكِیْمًا(۱۶۵)ترجمۂ کنزالعرفان: (ہم نے ) رسول خوشخبری دیتے اور ڈر سناتے (بھیجے) تاکہ رسولوں
(کو بھیجنے) کے بعد اللہ کے یہاں لوگوں کے لئے کوئی عذر (باقی )نہ رہے اور اللہ
زبردست ہے، حکمت والا ہے۔(پ6،النساء:165)
(10) حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو قرآن اور
شرعی احکام پہنچا دیں۔كَذٰلِكَ
اَرْسَلْنٰكَ فِیْۤ اُمَّةٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهَاۤ اُمَمٌ لِّتَتْلُوَاۡ
عَلَیْهِمُ الَّذِیْۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ وَ هُمْ یَكْفُرُوْنَ بِالرَّحْمٰنِؕ ترجَمۂ کنزُالایمان:اسی طرح ہم نے تم کو اس امت میں بھیجا جس سے پہلے امتیں ہو
گزریں کہ تم انہیں پڑھ کر سناؤ جو ہم نے تمہاری طرف وحی کی اور وہ رحمٰن کے منکر
ہورہے ہیں۔(پ 13،رعد:30)
مذکورہ آیات میں
انبیاء علیہم السلام کے تقریبا دس مقاصدِ بعثت بیان کیے گئے ہیں یعنی جن لوگوں نے
نیک اعمال کیے انہیں جنت کی بشارت دی اور جنہوں نے برے اعمال اور کفر و شرک کیا
انہیں جہنم کی وعید سنائیں۔ ان پر اللہ کی آیتیں پڑھ کر انہیں گمراہی سے نکالیں
اور دین اسلام کو دلائل سے دوسرے ادیان پر
غالب کر دیں۔ ان کو قرآن کریم میں بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگ اس سے نصیحت
حاصل کریں اور اپنی زندگیوں میں انقلاب برپا کریں۔اللہ پاک ہمیں ان سے نصیحت حاصل
کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان سے محبت کرنے کی اور اللہ ہمیں حضور صلی اللہ
علیہ وسلم کا سچا پکا غلام بنائے۔ اٰمین بجاہ النبی لامین صلی اللہ علیہ وسلم
تُو ہے خورشیدِ رسالت پیارے، چھپ گئے تیری ضیا میں تارے
انبیا اور ہیں سب مہ پارے ،تجھ سے ہی نور لیا کرتے ہیں