انبیائے کرام
اللہ پاک کے بعد افضل ہیں۔ تمام انبیا پر ایمان لانا ضروریاتِ دین میں سے ہے۔
انبیائے کرام کی دنیا میں آمد کا سلسلہ حضرت آدم علیہ السّلام سے شروع ہوا اور ہمارے پیارے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ختم ہوا۔
اللہ پاک نے کسی چیز کو بیکار پیدا نہیں فرمایا بلکہ زمین، آسمان، سورج، چاند، انسان،
چرند، پرند اور حیوان سب کو کسی نہ کسی مقصد کے تحت پیدا فرمایا جیسا کہ قراٰنِ
پاک میں ہے:وَ مَا خَلَقْنَا
السَّمَآءَ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَا بَاطِلًاؕ-ترجَمۂ
کنزُالایمان:اور ہم نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے بیکار نہ بنائے۔
(پ 23،صٓ:27) انبیائے
کرام علیہمُ السّلام کو بھی کئی مقاصد
کے لئے اللہ پاک نے اپنے بندوں کے پاس بھیجا جن کا اللہ پاک نے اپنے پیارے کلام
پاک میں کئی مقامات پر ذکر کیا ہے۔ اِنْ شآءَ اللہ میں انہی مقاصد میں سے کچھ
مقاصد بیان کرنے کی کوشش کروں گا:
(1)اللہ کی عبادت
کی دعوت کیلئے: وَ لَقَدْ بَعَثْنَا
فِیْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ اجْتَنِبُوا
الطَّاغُوْتَۚ-ترجَمۂ کنزُ الایمان: اور بےشک ہر اُمّت میں سے ہم نے ایک رسول بھیجا
کہ اللہ کو پوجو اور شیطان سے بچو۔ (پ 14،نحل:36)
(3،2)خوشخبری دینے اور
ڈر سنانے کے لئے: وَ مَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِیْنَ
اِلَّا مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَۚ- ترجمۂ
کنزالعرفان: اور ہم رسولوں کو خوشخبری دینے والے اور ڈر کی خبریں سنانے والے بنا
کر ہی بھیجتے ہیں۔ (پ 15،کہف:56)
(4)لوگوں پر حجت
قائم کرنے کیلئے: لِئَلَّا یَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَى
اللّٰهِ حُجَّةٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَزِیْزًا حَكِیْمًا(۱۶۵)ترجمۂ
کنزالعرفان:تاکہ رسولوں (کو بھیجنے) کے بعد اللہ کے یہاں لوگوں کے لئےکوئی عذر
(باقی) نہ رہے۔(پ6،نساء:165)
(6،5)لوگوں
کو زندگی کے بنیادی اختلاف سے نکالنے اور رضائے الہٰی کے مطابق زندگی گزارنے کی راہنمائی
کے لئے: وَ مَاۤ اَنْزَلْنَا
عَلَیْكَ الْكِتٰبَ اِلَّا لِتُبَیِّنَ لَهُمُ الَّذِی اخْتَلَفُوْا فِیْهِۙ-وَ
هُدًى وَّ رَحْمَةً لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ(۶۴)ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور ہم نے تم پر یہ کتاب نہ اتاری مگر اس لئے کہ تم لوگوں
پر روشن کردو جس بات میں اختلاف کریں اور ہدایت اور رحمت ایمان والوں کے لئے۔(پ
14،نحل:64)
(7)دین کو قائم
کرنے کے لئے: شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ
الدِّیْنِ مَا وَصّٰى بِهٖ نُوْحًا وَّ الَّذِیْۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ وَ مَا وَصَّیْنَا
بِهٖۤ اِبْرٰهِیْمَ وَ مُوْسٰى وَ عِیْسٰۤى اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَ لَا
تَتَفَرَّقُوْا فِیْهِؕ-ترجمۂ
کنزالعرفان: اس نے تمہارے لیے دین کا وہی راستہ مقرر فرمایا ہے جس کی اس نے نوح کو
تاکید فرمائی اور جس کی ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی اور جس کی ہم نے ابراہیم اور
موسیٰ اور عیسیٰ کو تاکید فرمائی کہ دین کو قائم رکھواور اس میں پھوٹ نہ ڈالو۔(پ25،شوریٰ
:13)
(8)انبیا کی سیرت
کو نمونۂ عمل سمجھنے کے لئے: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ
اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌترجمۂ کنزالعرفان: بیشک تمہارے لئے اللہ
کے رسول میں بہترین نمونہ موجود ہے۔(پ21،احزاب :21)
(10،9)لوگوں کو تعلیم دینے اور پاک کرنے کیلئے:لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى
الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ یَتْلُوْا
عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ
الْحِكْمَةَۚ-ترجَمۂ
کنزُالایمان: بے شک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک
رسول بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہےاور انھیں پاک کرتااور انھیں کتاب و حکمت
سکھاتا ہے۔ (پ 4،آل عمران:164)