نبی ہونے میں تو تمام انبیائے کرام علیہم السلام برابر ہیں اور قرآن میں جہاں یہ آتا ہے کہ ہم ان میں کوئی فرق نہیں کرتےاس سے یہی مراد ہوتا ہے کہ اصلِ نبوت میں ان کے درمیان کوئی فرق نہیں۔البتہ ان کے مراتب جداگانہ ہیں۔خصائص و کمالات میں فرق ہے۔ان کے درجات مختلف ہیں۔بعض بعض سے اعلیٰ ہیں اور ہمارے آقا علیہ ا لسلام سب سے اعلیٰ ہیں۔(تفسیرخازن)

انبیائے کرام علیہم السلام کا بشر ی صورت میں ظہور نبوت کے منافی نہیں۔ارشادِ باری ہے:وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْۤ اِلَیْهِمْ مِّنْ اَهْلِ الْقُرٰى(پ13،یوسف:109)ترجمہ:اور ہم نے تم سے پہلے جتنے رسول بھیجے وہ سب شہروں کے رہنے والے مرد ہی تھے جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے۔

حضور علیہ الصلوٰۃ وا لسلام نے ارشاد فرمایا:بنی اسرئیل میں انبیائے کرام علیہم السلام حکومت کیا کرتے تھے۔ جب ایک نبی کا وصال ہوتا ہے تو دوسرا نبی ان کا خلیفہ ہوتا ہے۔(لیکن یاد رکھو!)میرے بعد ہرگز کوئی نبی نہیں ہے۔ہاں!عنقریب خلفاء ہوں گے اور کثرت سے ہوں گے۔(بخاری،حدیث:2255)

حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے انتہائی برگزیدہ پیغمبر اور اولواالعزم رسولوں میں سے ایک رسول ہیں۔ شرم و حیا اور جسم کو چھپا کر رکھنا پسندیدہ اوصاف اور کئی صورتوں میں شریعت کو مطلوب ہیں۔حضرت موسیٰ علیہ السلام میں ان اوصاف سے متعلق نبیِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:حضرت موسیٰ علیہ السلام بہت حیا والے اور اپنا بدن چھپانے کا خصوصی اہتمام کرتے تھے۔(بخاری،حدیث:3204)

حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے چُنے ہوئے برگزیدہ بندے اور نبی رسول تھے:ارشادِ باری ہے: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) (پ16،مریم:51)ترجمہ:اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو بے شک وہ چُنا ہوا بندہ تھا اور نبی رسول تھا۔

آپ علیہ السلام اللہ پاک کی بارگاہ میں بڑی وجاہت یعنی بڑے مقام والے اور مستجابُ الدعوات تھے:ارشادِ باری ہے:وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹)(پ22،الاحزاب:69)ترجمہ:اور(موسیٰ)اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔

آپ علیہ السلام کو لوگوں کے دلوں کی آنکھیں کھولنے والی باتوں،ہدایت اور رحمت پر مشتمل کتاب تورات عطا فرمائی:فرمانِ باری ہے:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰى بَصَآىٕرَ لِلنَّاسِ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ(۴۳)(پ20،القصص:43) ترجمہ:اوربے شک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی اس کے بعد کہ ہم نے پہلی قوموں کو ہلاک فرما دیا تھا(موسیٰ کو وہ کتاب دی)جس میں لوگوں کے دلوں کی آنکھیں کھولنے والی باتیں، ہدایت اور رحمت ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔

آپ علیہ السلام کسی واسطے کے بغیر اللہ پاک سے ہم کلام ہو نے کا شرف رکھتے ہیں:ارشادِ باری ہے:وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴)(پ6،النسآء:164)ترجمہ:اور اللہ نے موسیٰ سے حقیقتاً کلام فرمایا۔

آپ علیہ السلام کو فرقان عطا کیا گیا:ارشادِ باری ہے:وَ اِذْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ الْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ(۵۳)(پ1،البقرۃ:53) ترجمہ:اور یاد کرو جب ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی اور حق و باطل میں فرق کرنا تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔فرقان کے کئی معانی کیے گئے ہیں:(1)فرقان سے مراد بھی تورات ہی ہے۔(2)کفر و ایمان میں فرق کرنے والے معجزات۔(3)حلال و حرام میں فرق کرنے والی شریعت مراد ہے۔(تفسیرنسفی)

آپ علیہ السلام کو نبوت و رسالت پر دلالت کرنے والی نوروشن نشانیاں عطا کیں:فرمانِ باری ہے:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰت(پ15،بنی اسرآءیل:101)ترجمہ:اوربے شک ہم نے موسیٰ کو نو روشن نشانیاں دیں۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کو روشن غلبہ و تسلط عطا فرمایا:قرآنِ پاک میں ہے:وَ اٰتَیْنَا مُوْسٰى سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا(۱۵۳)(پ6،النسآء:153) ترجمہ:اور ہم نے موسیٰ کو روشن غلبہ عطا فرمایا۔اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جب آپ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو توبہ کے لیے خود ان کے قتل کا حکم دیا تو وہ انکار نہ کر سکے اور انہوں نے آپ علیہ السلام کی اطاعت کی۔

حضرت موسیٰ اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون اور اس کی قوم کے ظلم سے نجات بخشی۔قبطیوں کے مقابلے میں ان کی مدد فرمائی اور بعد میں آنے والی امّتوں میں ان کی تعریف باقی رکھی:فرمانِ باری ہے: وَ لَقَدْ مَنَنَّا عَلٰى مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَۚ(۱۱۴) وَ نَجَّیْنٰهُمَا وَ قَوْمَهُمَا مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِیْمِۚ(۱۱۵) وَ نَصَرْنٰهُمْ فَكَانُوْا هُمُ الْغٰلِبِیْنَۚ(۱۱۶)وَ اٰتَیْنٰهُمَا الْكِتٰبَ الْمُسْتَبِیْنَۚ(۱۱۷)وَ هَدَیْنٰهُمَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَۚ(۱۱۸)وَ تَرَكْنَا عَلَیْهِمَا فِی الْاٰخِرِیْنَۙ(۱۱۹)سَلٰمٌ عَلٰى مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَ(۱۲۰)اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(۱۲۱)(پ23،الصّٰفّٰت:114تا121)ترجمہ:اور بے شک ہم نے موسیٰ اور ہارون پر احسان فرمایا اور ان کو اور ان کی قوم کو بہت بڑی سختی سے نجات بخشی اور ہم نے ان کی مدد فرمائی وہی غالب ہوئے اور ہم نے ان دونوں کو روشن کتاب عطا فرمائی اور انہیں سیدھی راہ دکھائی اور پچھلوں میں ان کی تعریف رکھی، موسیٰ اور ہارون پر سلام ہو، بے شک نیکی کرنے والوں کو ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بارگاہِ الٰہی میں عاجزی و انکساری کا ذکر قرآن میں یوں کہ آپ علیہ السلام نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کی:رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْ لِیْ فَغَفَرَ لَهٗؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ(۱۶) (پ20، القصص:16) ترجمہ:ا ے میرے رب! میں نے اپنی جان پر زیادتی کی توتو مجھے بخش دے تو اللہ نے اسے بخش دیا بے شک وہی بخشنے والا مہربان ہے۔