نبی اور رسول کی تعریف:نبی اس بشر یعنی انسان کو کہتے ہیں جس کی طرف اللہ پاک نے مخلوق کی رہنمائی کے لیےوحی بھیجی ہو اور ان میں سے جو نئی شریعت یعنی اسلامی قانون اور خدائی احکام لائے اسے رسول کہتے ہیں۔ (سیرت الانبیاء)

فضائلِ انبیاء:قرآن و حدیث میں انبیا و مرسلین کے انفرادی اور مجموعی بے شمار فضائل بیان ہوئے ہیں۔ فرمانِ باری ہے: تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍۘ-مِنْهُمْ مَّنْ كَلَّمَ اللّٰهُ وَ رَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجٰتٍؕ-وَ اٰتَیْنَا عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَ اَیَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِؕ-(پ3،البقرۃ: 253) ترجمہ:یہ رسول ہیں ہم نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت عطا فرمائی۔ان میں کسی سے اللہ نے کلام فرمایا اور کوئی وہ ہے جسے سب پر درجوں بلندی عطا فرمائی اور ہم نے مریم کے بیٹے عیسیٰ کو کھلی نشانیاں دیں اور پاکیزہ روح سے اس کی مدد کی۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام:ان سے اللہ پاک نے کوہِ طور پر بلا واسطہ کلام فرمایا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔

احادیثِ مبارکہ میں اوصافِ موسیٰ کا تذکرہ:نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا:حضرت موسیٰ صفیُّ اللہ یعنی اللہ پاک کے چُنے ہوئے بندے ہیں۔آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:حضرت موسیٰ بہت حیا والے اور اپنا بدن چھپانے کا خصوصی اہتمام کرتے تھے۔(سیرت الانبیاء)حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے،حضورﷺ کا فرمان ہے:مجھے انبیائے کرام علیہم السلام پر فضیلت نہ دو۔ بے شک یومِ حشر لوگ بے ہوش ہوں گے۔سب سے پہلے جسے بے ہوشی سے افاقہ ہوگا وہ میں محمد رسول ﷺہوں۔ تب میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیکھوں گا کہ وہ عرش کے پاؤں سے ایک پائے کو پکڑے ہوئے ہیں۔خدا معلوم انہیں مجھ سے پہلے افاقہ ہو چکا ہوگا یا کوہِ طور پر تجلی ڈالنے کے وقت بے ہوشی کی وجہ سے انہیں بے ہوش نہ کیا جائے گا۔سرکارﷺ کا یہ فرمان بطورِ عجز و انکساری کے لیے ہےیا اس وجہ سے تھا کہ دوسرے مذاہب کے لوگ عصبیت و غضب کا اظہار نہ کریں۔(قصص الانبیاء)

قرآنِ مجید میں اوصافِ موسیٰ کا تذکرہ:

حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ربِّ دو جہاں نے بے شمار انعامات فرمائے۔آپ کو لوگوں کے دلوں کی آنکھیں کھولنے والی باتوں، ہدایت اور رحمت پر مشتمل کتاب تورات عطا فرمائی:فرمانِ باری ہے:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰى بَصَآىٕرَ لِلنَّاسِ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ(۴۳) (پ20، القصص:43)ترجمہ:اور بے شک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی۔اس کے بعدکہ ہم نے پہلی قوموں کو ہلاک فرما دیا تھا۔(موسیٰ کو وہ کتاب دی)جس میں لوگوں کے دلوں کی آنکھیں کھولنے والی باتیں اور ہدایت اور رحمت ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔

آپ علیہ السلام اللہ پاک کی بارگاہ میں بڑی وجاہت یعنی بڑے مقام والے اور مستجابُ الدعوات تھے:وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) (پ22،الاحزاب:69)ترجمہ:اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔

بنی اسرائیل کو ان کے زمانے میں تمام جہان والوں پر فضیلت عطا کی:وَ لَقَدِ اخْتَرْنٰهُمْ عَلٰى عِلْمٍ عَلَى الْعٰلَمِیْنَۚ(۳۲)(پ25، الدخان:32)ترجمہ:اور بے شک ہم نے انہیں جانتے ہوئے اس زمانے والوں پر چن لیا۔

آپ علیہ السلام کو علم و حکمت سے نوازا گیا:وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَ اسْتَوٰۤى اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًاؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(۱۴)(پ20، القصص:14)ترجمہ:اورجب موسیٰ اپنی جوانی کو پہنچے اور بھرپور ہو گئے تو ہم نے اسے حکمت اور علم عطا فرمایا۔اور ہم نیکوں کو ایسا ہی صلہ دیتے ہیں۔

آپ علیہ السلام اور آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندے تھے: اِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۲۲)(پ22،الصّٰفّٰت:122) ترجمہ:بے شک وہ دونوں ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں۔