دس صفات مومن از
بنت سید سردار علی، جامعۃ المدینہ فیض مدینہ نارتھ کراچی
مومن وہ ہے جو ایمان کی صفت سے متصف ہو اور زندگی
اللہ پاک اور اس کے پیارے محبوب ﷺ کے احکام کے مطابق گزارے۔ اللہ پاک نے قرآن مجید
میں مومن کی صفات متعدد مقامات پر بیان فرمائی ہیں جن میں سے 10صفات درج ذیل ہیں۔
1۔ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱) (پ18، المومنون: 1) ترجمہ
کنز العرفان: بیشک ایمان والے کامیاب
ہوگئے۔ جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں اور وہ جو فضول بات سے منہ
پھیرنے والے ہیں۔اس آیتِ مبارکہ میں ایمان والوں کو بشارت دی گئی ہے کہ بے شک وہ
اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئےاور ہمیشہ کے لیے جنت میں داخل
ہو کر ہر نا پسندیدہ چیز سے نجات پا جائیں گے (تفسیر کبیر، 8/358)
2۔ مؤمنین نماز خضوع وخشوع سے پڑھتے ہیں۔ الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲) (پ 18،
المومنون: 2) ترجمہ کنز الایمان: جو اپنی
نماز میں گڑگڑاتے ہیں۔ نماز میں ظاہری خشوع یہ ہے کہ نماز کے آداب کی مکمل رعایت
کی جائے اور باطنی خشوع یہ ہے کہ اللہ پاک کی عظمت پیش نظر ہو دنیا سے توجہ ہٹی
اور نماز میں دل لگا ہو ایسی نماز کی فضیلت حدیث پاک میں یوں بیان ہوتی ہے کہ وہ نمازاس
کے سابقہ گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہے جب تک کہ وہ کوئی کبیرہ گناہ نہ کرے اور
سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا(زندگی میں جب بھی خشوع و خضوع سے نماز ادا کرے گا تو یہ
فضیلت ملے گی)۔ (مسلم، ص123، حدیث: 228)
3۔ مؤمنین لغو باتوں سے اعراض کرتے ہیں۔ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳) (پ 18،
المومنون: 3) ترجمہ کنز الایمان: اور وہ
جو کسی بے ہودہ بات کی طرف التفات نہیں کرتے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما
فرماتے ہیں: یہاں لغو سے مرادشرک ہے البتہ عمومی معنی کے اعتبار سے اس میں ہر وہ
قول و فعل اور ناپسندیدہ یا مباح کام داخل ہے جس کا مسلمان کو دینی یا دنیاوی کوئی
فائدہ نہ ہو۔ رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: آدمی کے اسلام کی اچھائی میں سے یہ ہے
کہ وہ بے مقصد چیز چھوڑ دے۔ (ترمذی، 4/ 142، حدیث: 2344)
4۔ مؤمنین زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴) (پ 18، المومنون: 4) ترجمہ کنز
الایمان: اور وہ کہ زکوٰۃ دینے کا کام کرتے ہیں۔ اس آیتِ مبارکہ میں اہل ایمان کا
وصف بیان کیا گیا ہے کہ وہ پابندی کے ساتھ اور ہمیشہ اپنے مالوں پر فرض ہونے والی
زکوۃ دے۔ بعض مفسرین نے اس آیت میں مذکور لفظ زکوۃ کا ایک معنی تزکیہ نفس بھی ہیں
یعنی ایمان والے اپنے نفس کو دنیا کی محبت وغیرہ مذموم صفات سے پاک کرنے کا کام
کرتے ہیں۔ (مدارک، ص 781)
5۔ مومنین شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) (پ18، المومنون:5) ترجمہ کنز العرفان: اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت
کرنے والے ہیں۔اس آیتِ مبارکہ اور اسکے بعد والی آیتِ مبارکہ کا خلاصہ یہ ہے کہ
ایمان والے زنا اور زنا کے اسباب و لوازمات وغیرہ حرام کاموں سے اپنی شرمگاہوں کی
حفاظت کرتے ہیں البتہ اگر وہ اپنی بیویوں اور شرعی باندیوں کے ساتھ جائز طریقے سے
محبت کریں تو اس میں ان پر کوئی ملامت نہیں۔(خازن، 3/5،6)
بیویوں، شرعی باندیوں سے جائز طریقے کے ساتھ شہوت
پوری کرنے کے علاوہ شہوت پوری کرنے کی تمام صورتیں حرام ہیں۔
6۔ امانتوں اور وعدوں کی رعایت کرنے والے۔ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸) (پ 18، المومنون: 8) ترجمہ کنز
الایمان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرتے ہیں۔ اس آیت مبارکہ
میں فلاح پانے والے اہل ایمان کے مزید دو وصف بیان کئے گئے ہیں کہ ان کے پاس کوئی
چیز امانت رکھوائی جائے تو وہ اس میں خیانت نہیں کرتے اور جس سے وعدہ کرتے ہیں اسے
پورا کرتے ہیں یاد رہے کہ امانتیں خواہ اللہ پاک کی ہوں یا مخلوق کی سب کے ساتھ
وفا لازم ہے۔ (روح البیان، 6/8)
7۔ نمازوں کی حفاظت کرنے والے۔ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹) (پ 18، المومنون: 9) ترجمہ کنز
الایمان: اور وہ جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں۔ یعنی کامیابی حاصل کرنے والے
وہ مومن ہیں جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں اور انہیں ان کے وقتوں میں، ان کے
شرائط و آداب،سنن و نوافل سب کی نگہبانی کرتے ہیں۔ (مدارک، ص 752 ملتقطاً) حضرت
عبادہ سے روایت ہے تاجدارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا: پانچ نمازیں اللہ پاک نے
بندوں پر فرض کیں جس نے اچھی طرح وضو کیا اور وقت میں سب نمازیں پڑھیں رکوع اور
خشوع کو پورا کیا تو اس کے لئے اللہ پاک نے اپنے ذمہ کرم پر عہد کرلیا ہے کہ اسے
بخش دے اور جس نے نہ کیا اس کے لئے عہد نہیں چاہے بخش دے چاہے عذاب کرے۔ (ابو داود،
1/186، حدیث: 425)
8۔ مومنین مسجدوں کو آباد رکھتے ہیں۔ اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ
الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَى الزَّكٰوةَ وَ لَمْ یَخْشَ
اِلَّا اللّٰهَ فَعَسٰۤى اُولٰٓىٕكَ اَنْ یَّكُوْنُوْا مِنَ الْمُهْتَدِیْنَ(۱۸) (پ
11، التوبۃ: 18) ترجمہ کنز الایمان: اللہ
کی مسجدیں وہی آباد کرتے ہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان لاتے اور نماز قائم کرتے
اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ پاک کے سوا کسی سے نہیں ڈرتےتو قریب ہے کہ یہ لوگ
ہدایت والوں میں ہوں۔ اس آیتِ کریمہ میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ مسجدیں آباد کرنے
کے مستحق مومنین ہیں مسجدوں کو آباد کرنے میں یہ امور بھی داخل ہیں: جھاڑو
دینا،صفائی کرنا،روشنی کرنا اور مسجدوں کو دنیا کی باتوں سے اور ایسی چیزوں سے
محفوظ رکھنا جن کے لئےوہ نہیں بنائیں گئیں۔ (خازن، 2/222)
9۔ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ
الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ
عَلَیْهِمْ اٰیٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّ عَلٰى رَبِّهِمْ
یَتَوَكَّلُوْنَۚۖ(۲)
(پ9، الانفال: 2) ترجمہ کنز العرفان:
ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ کویاد کیا جائے توان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان
پر اس کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ
اپنے رب پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔اس آیت مبارکہ میں ایمان میں سچے اور کامل لوگوں کا
پہلا وصف یہ ہوا کہ جب اللہ پاک کو یاد کیا جائے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں۔ اللہ
پاک کا خوف دو طرح کا ہوتا ہے: عذاب کے خوف سے گناہوں کو ترک کر دینا اور اللہ کے
جلال،اس کی عظمت اور اس کی بے نیازی سے ڈرنا۔ پہلی قسم کا خوف مسلمانوں میں سے
پرہیز گاروں کو ہوتا ہے اور دوسری قسم کا خوف انبیاء و مرسلین، اولیائے کاملین اور
مقرب فرشتوں کو ہوتا ہے اور جس کا اللہ پاک سے جتنا قرب ہوتا ہے اتنا ہی زیادہ خوف
ہوتا ہے۔ (تفسیر کبیر، 5/450 ملتقطاً)
اس آیت میں دوسرا وصف یہ بیان ہوا ہے اللہ پاک کی
آیات سن کر ان کے ایمان میں اضافہ ہوجاتا ہے یہاں ایمان میں زیادتی مراد نہیں بلکہ
اس سے مراد ایمان کی کیفیت میں زیادتی ہے۔
تیسرا وصف یہ بیان ہوا ہے کہ وہ اپنے رب پر ہی
بھروسہ کرتے ہیں یعنی وہ اپنے تمام کام اللہ پاک کے سپرد کردیتے ہیں اور اس کے علاوہ
کسی سے امید رکھتے ہیں نہ کسی سے ڈرتے ہیں۔
10۔ الَّذِیْنَ
یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ هُمْ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ
یُوْقِنُوْنَ(۳) (پ 19، النمل: 3) ترجمہ: وہ جو
نمازقائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ اس آیت میں
اللہ تعالیٰ نے ان (کامل ایمان والوں ) کے دو اوصاف ایسے بیان فرمائے ہیں کہ جن کا
تعلق ظاہری اعضاء کے اعمال سے ہے،پہلا وصف یہ ارشاد فرمایا کہ وہ جو نماز قائم
رکھنے سے مراد یہ ہے کہ فرض نمازوں کو ان کی تمام شرائط وارکان کے ساتھ ان کے
اوقات میں ادا کرنا۔ دوسرا وصف یہ ارشاد فرمایا کہ اورہمارے دیئے ہوئے رزق میں سے
ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے مال اس جگہ خرچ کرتے ہیں
جہاں خرچ کرنے کا الله تعالیٰ نے ارشاد فرمایا، اس میں زکوٰة، حج،جہاد میں خرچ
کرنااور نیک کاموں میں خرچ کرنا سب داخل ہے (خازن، 3/177)
اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں صحیح اور سچا مومن
بننے کی توفیقِ کاملہ عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین