محمد وسیم عطاری بن محمد انور(جامعہ المدینہ فیضان مدینہ
گوجرانوالہ پاکستان)
(1) نماز: ایمان لانے کے بعد سب سے اہم اور افضل عبادت نماز ادا
کرنا ہے۔ اللہ پاک نے مسلمانوں نماز قائم کرنے کا حکم بڑی تاکید سے
فرمایا ہے چنانچہ اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ
بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۙ(۳) ترجمۂ کنزالایمان: وہ جو بے دیکھے ایمان
لائیں اور نماز قائم رکھیں اور ہماری دی ہوئی روزی میں سے ہماری راہ میں اٹھائیں۔(
پ1، البقرۃ: 3)
(2) روزہ: روزہ رکھنا یہ بہت اہم عبادت ہے روزے پہلی
امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے اور امت مسلمہ پر بھی فرض کیے گئے ہیں روزہ بدنی
عبادت ہے ۔ قراٰن و احادیث میں روزے کی بہت زیادہ اہمیت بیان کی گئی ہے چنانچہ
اللہ پاک قراٰنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ
عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ(۱۸۳) ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو تم پر روزے فرض کیے گئے
جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں پرہیزگاری ملے۔ (پ2، البقرۃ: 183)
(3) زکوٰة:زکوٰة ہر مالک نصاب مسلمان پر فرض ہے جب کہ اس کے مال پر
ایک سال گزر جائے ۔ جب زکوة فرض ہوجائے تو اس کے بارے میں علم سیکھنا بھی فرض
ہوجاتا ہے ۔اللہ پاک نے مسلمانوں کو زکوة ادا کرنے کا حکم فرمایا ہے جو لوگ زکوة
ادا نہیں کرتے ان کے لئے وعیدات بھی سنائی گئی ہیں، زکوة ادا کرنے کے بہت سے فائدے
بھی ۔ زکوة امیر سے لے کر غریب کو دی جاتی ہے تاکہ غریب بھی اپنی زندگی میں خوشیاں
دیکھ سکے اور زکوة دینے والے کا مال بھی پاک ہوجاتا ہے کیونکہ زکوة مال کی میل ہے
تو جب کسی چیز سے میل کو دور کردیا جائے تو وہ چیز صاف ستھری ہوجاتی ہے ۔چنانچہ
اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے :اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ
وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ لَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْۚ-وَ لَا خَوْفٌ
عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ(۲۷۷) ترجمۂ
کنزالایمان: بے شک وہ جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے اور نماز قائم کی
اور زکٰوۃ دی اُن کا نیگ(اجروثواب) ان کے رب کے پاس ہے اور نہ انہیں کچھ اندیشہ ہو
نہ کچھ غم۔ (پ3، البقرۃ: 277)
4) ،5) حج و عمرہ: حج ارکاں اسلام
میں سے بہت اہم رکن ہے۔ عالم اسلام کا یہ سالانہ روح پرور منظر دیکھ کر عالم کفر
کانپ جاتا ہے۔ اس منظر سے غیر مذاہب پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ اور کئی غیر مسلم
ایمان بھی لے آتے ہیں۔ حج جیسی عبادت کو سر انجام دینا بہت سعادت کی بات ہے ۔ حج
ہر مالک نصاب صاحب استطاعت مسلمان پر زندگی میں ایک بار فرض ہے ۔ اس کے ساتھ ہی
اللہ پاک نے عمرہ کرنے کا بھی حکم فرمایا ہے۔ عمرہ شریف تو پورا سال ہی ہوتا رہتا
ہے جبکہ حج سال میں ایک مرتبہ۔اللہ پاک نے قراٰن میں مسلمانوں کو حکم فرمایا : وَ اَتِمُّوا الْحَجَّ وَ الْعُمْرَةَ
لِلّٰهِؕ ترجمۂ کنزالایمان: اور حج اور عمرہ
اللہ کے لیے پورا کرو۔ (پ2، البقرۃ: 196)
(6) جھوٹ:جھوٹ بہت ہی کبیرہ گناہ جوکہ اللہ پاک کی ناراضی کا سبب ہے۔
اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں جھوٹ اور جھوٹوں کی
مذمت فرمائی ہے :اِنَّمَا یَفْتَرِی الْكَذِبَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ
اللّٰهِۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ(۱۰۵) ترجمۂ
کنز الایمان: جھوٹ بہتان وہی باندھتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں
رکھتےاور وہی جھوٹے ہیں۔(پ14،النحل:105)
(7) غیبت:غیبت کا شمار بھی
کبیرہ گناہوں میں ہی ہوتا ہے۔ اور یہ ایسا کبیرہ گناہ ہے۔ کہ جس کی مذمت خود خالق
کائنات نے قراٰن میں بھی ارشاد فرمائی۔ اللہ پاک قراٰنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
وَ لَا یَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًاؕ-اَیُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ یَّاْكُلَ
لَحْمَ اَخِیْهِ مَیْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُؕ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ
تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ(۱۲)ترجمہ کنزالایمان: اور ایک
دوسرے کی غیبت نہ کرو کیا تم میں کوئی پسند رکھے گا کہ اپنے مرے بھائی کا گوشت
کھائے تو یہ تمہیں گوارا نہ ہوگا اور اللہ سے ڈرو بےشک اللہ بہت توبہ قبول کرنے
والا مہربان ہے۔ (پ26 ، الحجرات : 12)
(8) بد
گمانی:بد گمانی بھی کسی مسلمان سے کرنا جائز نہیں ہے ۔ کیونکہ یہ
بھی بہت برائیوں کی جڑ ہے۔ خواہ مخواہ مسلمانوں سے برے گمان کرتے رہنا ۔ اس سے
دلوں میں کینہ پیدا ہوتا ہے ۔ اور محبت کم ہوتی ہے ۔ اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں
برے گمان کرنے کے حوالے سے منع فرمایا ہے : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا
اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ ترجمۂ کنزالایمان:اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو بےشک
کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے۔(پ26، الحجرات:12)
(9) تجسس: تجسس یہ ہے کہ خوامخواہ مسلمان کے کاموں یا عیبوں کی تلاش
میں پڑا رہنا ۔ یہ اچھی بات نہیں ہے۔ اس سے انسان کو خود ہی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
اللہ پاک نے مسلمانوں کو حکم فرمایا ہے ۔ ایسے ہی تم تجسس میں نہ پڑو۔ وَ لَا تَجَسَّسُوْا ترجمہ کنزالایمان :اور عیب نہ ڈھونڈو ۔(پ26،الحجرات:12)(10) بدکاری: زنا کسی بھی معاشرے کا بہت خطرناک ناسور ہے۔ جوکہ اس
معاشرے کی تباہی کا سبب ہے : وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى
اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(۳۲) ترجمۂ کنزالایمان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بےشک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی
بُری راہ۔( پ15،بنٓی اسرآءیل:32)
(11) سود: سود کھانا حرام جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ قراٰن و
احادیث میں اس کی مذمت بیان کی گئی ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا
مُّضٰعَفَةً۪- وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ(۱۳۰)ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو سود دونا دون نہ کھاؤ اور
اللہ سے ڈرو اُس امید پر کہ تمہیں فلاح ملے۔(پ4،آل عمران: 130)
(12) حسد:حسد ایک باطنی گناہ ہے۔ اس سے تمام مسلمانوں کو بچنا چاہیے۔
کیونکہ یہ گناہ بھی حرام ہے اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے ۔اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰى مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ
فَضْلِهٖۚ-فَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ
اٰتَیْنٰهُمْ مُّلْكًا عَظِیْمًا(۵۴) ترجمۂ کنز الایمان: یا لوگوں
سے حسد کرتے ہیں اس پر جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دیا تو ہم نے تو ابراہیم کی
اولاد کو کتاب اور حکمت عطا فرمائی اور انہیں بڑا ملک دیا۔(پ5،النسآء:54)
(13) بخل:بخل کا مطلب ہے کنجوسی ۔بخل کئی طرح کا ہوتا ہے مال میں
بخل، عزت دینے میں بخل، بات کرنے میں بخل کرنا وغیرہ لیکن شریعت مطہرہ میں جس بخل
کی مذمت آئی ہے اس سے مراد وہ بخل ہے جس میں شرع کے احکام میں کمی کی جائے ۔وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ
فَضْلِهٖ هُوَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْؕ-سَیُطَوَّقُوْنَ مَا
بَخِلُوْا بِهٖ یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-وَ لِلّٰهِ مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ
الْاَرْضِؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ۠(۱۸۰) ترجمۂ
کنز الایمان: اور جو بخل کرتے ہیں اس چیز میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل
سے دی ہرگز اسے اپنے لیے اچھا نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کے لیے برا ہے عنقریب وہ جس
میں بخل کیا تھا قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہوگا اور اللہ ہی وراث ہے آسمانوں
اور زمین کااور اللہ تمھارے کا موں سے خبردار ہے۔ (پ4، آلِ عمرٰن:180)
(14) ناپ تول میں کمی:شریعت
اسلامیہ ایسی پاک شریعت ہے۔ کہ جس نے انسانوں کے حقوق کو پامال ہونے سے بچایا ۔
ناپ تول میں کمی کرنا اس کا تعلق انسانوں کے ساتھ ہے ۔ اسلام نے کسی کی بھی حق
تلفی کرنے سے منع کیا ہے ۔فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ
الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی
الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَاؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ
مُّؤْمِنِیْنَۚ(۸۵) ترجمہ کنزالایمان: تو ناپ اور تول پوری کرو اور لوگوں کی
چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں ا نتظام کے بعد فساد نہ پھیلاؤ یہ تمہارا بھلا
ہے اگر ایمان لاؤ۔(پ8،الاعراف:85)
(15) تکبر:تکبر ایک باطنی مرض ہے۔ جس طرح بندہ جسمانی طور پر بیمار
ہوتا ہے ایسے ہی باطنی طور پر بھی بیمار ہوجاتا ہے ۔تکبر کی مذمت اللہ پاک نے قراٰنِ
پاک میں بیان کی ہے۔ تِلْكَ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ
عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَ لَا فَسَادًاؕ-وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِیْنَ(۸۳) ترجمۂ کنز الایمان: یہ آخرت کا گھر ہم اُن کے لیے کرتے
ہیں جو زمین میں تکبر نہیں چاہتے اور نہ فساد اور عاقبت پرہیزگاروں ہی کی ہے۔(پ20، القصص:83)
اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے۔ کہ اللہ پاک ہمیں قراٰن کے
احکام پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔