اللہ پاک کا کروڑہا کروڑ احسان ہے کہ ہمیں اس نے مسلمان بنایا اور اس پر کرم بالائے کرم کہ اپنے حبیب شہنشاہِ کونین سید الثقلین مصطفی جانِ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی امت میں ہمیں پیدا فرمایا جو سب امتوں سے افضل ہے ۔ اس دنیا میں بہت سے بادشاہ گزرے ہیں جنہوں نے اپنے مقام و مرتبے اور اپنی شان و شوکت کے اعتبار سے اپنی اپنی بارگاہوں کے کچھ نہ کچھ آداب بتائیں ۔

ہمارے پیارے آقا احمدِ مجتبیٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس دنیا میں آنے والے تمام بادشاہوں کے بادشاہ اور تمام شہنشاہوں کے شہنشاہ ہے۔اللہ کی تمام مخلوق کے سردار اور سب مخلوقِ خدا سے افضل ہے۔ آپ کی شان ہی ہے کہ دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کو اپنی اپنی قوم کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا لیکن حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خود ارشاد فرماتے ہیں کہ مجھے تمام مخلوق کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا۔

ایسی عظیم شان و شوکت والے نبی جن کو تمام جہان کی بادشاہی عطا کی گئی ہیں۔ ان کی بارگاہ کے آداب کے تو کیا کہنے۔ جن کی بارگاہ کے آداب خود رب العالمین بیان فرماتا ہے۔ جیسا کہ قراٰنِ کریم پارہ 26 سورہ حجرات کی آیت نمبر 2 میں ارشادِ خداوندی ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سےاور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (پ26،الحجرات:2) اس آیتِ پاک میں اللہ پاک نے نبی کی مبارک آواز سے اوروں کو آواز بلند کرنے سے منع فرمایا ہے اور فرمایا کہ حضور کی بارگاہ میں بھی آواز بلند نہ کرو۔

اور پھر جو حضور کی بارگاہ میں آواز پست کرتے ہے ان کے لئے خوش خبری ہے ۔

جیسا کہ سورہ حجرات آیت 3 میں ہے : اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰىؕ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(۳) ترجمۂ کنز الایمان :بےشک وہ جو اپنی آوازیں پست کرتے ہیں رسول اللہ کے پاس وہ ہیں جن کا دل اللہ نے پرہیزگاری کے لیے پرکھ لیا ہے ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔(پ26،الحجرات:3)

ایک اور جگہ سورہ حجرات آیت 4 میں فرمایا: اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں ۔ (پ26،الحجرات: 4) اس آیت میں رب العزت نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حجرۂ مبارکہ کے باہر سے لوگوں منع فرمایا ہے کہ وہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو پکارے بلکہ فرمایا بہتر یہ ہے کہ آنے والا شخص حضور کے باہر تشریف لانے کا انتظار کرے۔

جیسا کہ سورہ حجرات آیت 5 میں ارشاد ہوا کہ: وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُ جَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ تم آپ اُن کے پاس تشریف لاتےتو یہ اُن کے لیے بہتر تھا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔(پ26،الحجرات:5)

اللہ پاک نے کیسا ادب بیان فرمایا ہے اپنے حبیب کی بارگاہ کا۔ ایک اور مقام پر ایسے الفاظ استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے جن کے عموماً دو پہلو نکلتے ہو ۔

سورہ بقرہ آیت 104 میں ارشاد فرمایا گیا : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔(پ1،البقرۃ:104)

اس آیت پاک کا شانِ نزول تفسیرِ صراطُ الجنان میں کچھ یوں ہے کہ : جب حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم کو کچھ تعلیم و تلقین فرماتے تو وہ کبھی کبھی درمیان میں عرض کیا کرتے۔ ’’رَاعِنَا یارسول اللہ‘‘ اس کے یہ معنی تھے کہ یا رسول اللہ ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ، ہمارے حال کی رعایت فرمائیے یعنی کلامِ اقدس کو اچھی طرح سمجھ لینے کا موقع دیجئے۔ یہودیوں کی لغت میں یہ کلمہ بے ادبی کا معنی رکھتا تھا اور انہوں نے اسی بری نیت سے کہنا شروع کردیا۔ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہُ عنہ یہودیوں کی اصطلاح سے واقف تھے۔ آپ نے ایک روز یہ کلمہ ان کی زبان سے سن کر فرمایا: اے دشمنانِ خدا !تم پر اللہ کی لعنت، اگر میں نے اب کسی کی زبان سے یہ کلمہ سنا تو اس کی گردن اڑا دوں گا۔ یہودیوں نے کہا: ہم پر تو آپ برہم ہوتے ہیں جبکہ مسلمان بھی تو یہی کہتے ہیں ، اس پر آپ رنجیدہ ہو کر سرکار ِ دوعالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت ِاقدس میں حاضر ہوئے ہی تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی جس میں ’’رَاعِنَا‘‘ کہنے کی ممانعت فرمادی گئی اور اس معنی کا دوسرا لفظ ’’اُنْظُرْنَا‘‘ کہنے کا حکم ہوا ۔ (قرطبی، البقرۃ، تحت الآیۃ: 104، 1/ 44-45، الجزء الثانی، تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: 104، ۱ / 634، تفسیر عزیزی(مترجم)2 / 669، ملتقطاً) اور اسی آیت میں ایک اور ادب یہ فرمایا کہ جب حضور کوئی بات فرمائے تو اس طرح ہمہ تن گوش ہو کر سنو کہ دوبارہ فرمانے کی حاجت ہی نہ پڑے۔

اس آیتِ مقدسہ سے ہمیں معلوم ہوا کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی تعظیم و توقیر اور ان کی بارگاہ کا ادب بجا لانا فرض ہےاور ایسا جملہ جس میں بارگاہِ رسالت کے آداب ترک ہونے کی تھوڑی سی بھی بو آئے اسے زبان پر نہ لایا جائے۔ اور جو حضورِ اکرم کی بارگاہ کے معمولی سے بھی بے ادب ہوئے ان کے لئے درد ناک عذاب کا وعدہ ہے نیز اس آیتِ مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خود رب العالمین حضور کی بارگاہ کی تعظیم و توقیر کے متعلق احکامات کو جاری فرماتا ہے۔

اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ کا ایسا ادب کرنے والا بنائے جیسا اللہ و رسول چاہتے ہے۔