ربِ رحیم نے اپنے محبوبِ کریم کی کیا شان بلند فرمائی ہے جس کی بارگاہ میں حاضری کو رب العالمین نے اپنی بارگاہ میں حاضری کا ذریعہ بتادیا تبھی تو قراٰنِ کریم میں ارشاد ہوتا ہے: وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا(۶۴) ترجمۂ کنز العرفان: اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کربیٹھے تھے تو اے حبیب! تمہاری بارگاہ میں حاضر ہو جاتے پھر اللہ سے معافی مانگتے اور رسول (بھی) ان کی مغفرت کی دعا فرماتے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا، مہربان پاتے۔(پ5،النسآء:64)

اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: بندوں کو حکم ہے کہ ان (یعنی نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کی بارگاہ میں حاضر ہو کر توبہ و استغفار کریں۔ اللہ تو ہر جگہ سنتا ہے، اس کا علم ،اس کا سَمع (یعنی سننا)، اس کا شُہود (یعنی دیکھنا) سب جگہ ایک سا ہے، مگر حکم یہی فرمایا کہ میری طرف توبہ چاہو تو میرے محبوب کے حضور حاضر ہو۔ (فتاویٰ رضویہ،15/ 654)

اسی لئے تو امام عشق و محبت امام احمد رضا رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:

بخدا خدا کا یہی ہے در نہیں اور کوئی مَفَر مَقَر

جو وہاں سے ہو یہیں آ کے ہو جو یہاں نہیں تو وہاں نہیں

لہذا تھوڑا سا بھی عقل و شعور رکھنے والا سمجھ سکتا ہے کہ بارگاہِ نبوی میں کس قدر ادب کو ملحوظ رکھا جائے گا، کہ یہی درِ خدا ہے۔ چنانچہ اسی ضمن میں بارگاہِ نبوی کے 5 آداب قراٰنِ کریم سے بیان کئے دیتے ہیں جو اللہ پاک نے بندوں کو سکھائے ہیں۔

(1) قراٰنِ کریم میں ہے:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔(پ1،البقرۃ:104)

جب حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم صحابہ کرام رضی اللہُ عنہم کو کچھ تعلیم و تلقین فرماتے تو وہ کبھی کبھی درمیان میں عرض کیا کرتے۔ "رَاعِنَا یَارَسُوْلَ اللہْ" اس کے یہ معنی تھے کہ یا رسول اللہ ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، ہمارے حال کی رعایت فرمائیے یعنی کلامِ اقدس کو اچھی طرح سمجھ لینے کا موقع دیجئے۔ یہودیوں کی لغت میں یہ کلمہ بے ادبی کا معنی رکھتا تھا اور انہوں نے اسی بری نیت سے کہنا شروع کردیا۔ تو یہ آیت نازل ہوئی جس میں "رَاعِنَا" کہنے کی ممانعت فرما دی گئی اور اس معنی کا دوسرا لفظ "اُنْظُرْنَا" کہنے کا حکم ہوا۔ لہذا اس آیت سے معلوم ہوا کہ انبیاء کرام علیہمُ السّلام کی تعظیم و توقیر اور ان کی جناب میں ادب کا لحاظ کرنا فرض ہے اور جس کلمہ میں ترکِ ادب کا معمولی سا بھی اندیشہ ہو وہ زبان پر لانا ممنوع ہے۔ (صراط الجنان)

(2) مذکورہ آیت کے اس جز "وَ اسْمَعُوْا": اور غور سے سنو۔" میں بھی ایک ادب بیان ہوا کہ حضورِ پُرنور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے کلام فرمانے کے وقت ہمہ تن گوش ہو جاؤ تاکہ یہ عرض کرنے کی ضرورت ہی نہ رہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم توجہ فرمائیں کیونکہ دربارِ نبوت کا یہی ادب ہے۔ (صراط الجنان)

(3،4) اللہ پاک فرماتا ہے : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سےاور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (پ26،الحجرات:2) اس آیت ِمبارکہ میں بھی اللہ پاک نے ایمان والوں کو اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دو عظیم آداب سکھائے ہیں، پہلا (1) ادب یہ ہے کہ اے ایمان والو! جب نبیٔ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تم سے کلام فرمائیں اور تم ان کی بارگاہ میں کچھ عرض کرو تو تم پر لازم ہے کہ تمہاری آواز ان کی آواز سے بلند نہ ہو بلکہ جو عرض کرنا ہے وہ آہستہ اور پَست آواز سے کرو۔ دوسرا (2) ادب یہ ہے کہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ندا کرنے میں ادب کا پورا لحاظ رکھو اور جیسے آپس میں ایک دوسرے کو نام لے کر پکارتے ہو اس طرح نہ پکارو بلکہ تمہیں جو عرض کرنا ہو وہ ادب و تعظیم اور توصیف وتکریم کے کلمات اور عظمت والے اَلقاب کے ساتھ عرض کرو جیسے یوں کہو: یا رسولَ اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، یا نَبِیَّ اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، کیونکہ ترکِ ادب سے نیکیوں کے برباد ہونے کا اندیشہ ہے اور اس کی تمہیں خبر بھی نہ ہو گی۔

(5) بارگاہِ نبوی کا پانچواں ادب میرا رب سکھاتے ہوئے فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (پ26، الحجرات:1) اس آیت میں اللہ پاک نے ایمان والوں کو اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ادب و احترام ملحوظ رکھنے کی تعلیم دی ہے اور آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اجازت کے بغیر کسی قول اور فعل میں اصلاً ان سے آگے نہ بڑھنا تم پر لازم ہے کیونکہ یہ آگے بڑھنا رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ادب و احترام کے خلاف ہے۔(صراط الجنان)

بارگاہِ نبوی کے جو آداب قراٰنِ کریم میں وارد ہیں اللہ پاک ہمیں ان کا لحاظ کرنے والا بنائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم