ادب گاہسیت زیر آسماں از عرش
نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید
ایں جا
دنیا دی بادشاہ ! اپنے درباروں کے آداب اور ان میں حاضری
دینے کے قوانین خود بناتے ہیں اور اپنے مقررہ حاکموں کے ذریعہ رعایا سے اُن پر عمل
کراتے ہیں کہ جب ہمارے دربار میں آؤ تو اس طرح کھڑے ہو، اس طرح بات کرو، اس طرح
سلامی دو۔ پھر جو کوئی آداب بجا لاتا ہے اس کو انعام دیتے ہیں جو اس کے خلاف کرتا
ہے بادشاہ کی طرف سے سزا پاتا ہے۔ یہ سارے قاعدے صرف انسانوں پر ہی جاری ہوتے ہیں
، دوسری مخلوقات جِنّ ، فرشتے وغیرہ کو ان سے کوئی تعلق نہیں ۔ پھر یہ سارے آداب
اس وقت تک رہتے ہیں جب تک بادشاہ زندہ ہے اور اس کی حکومت قائم ہے ۔ لیکن اس آسمان
کے نیچے ایک ایسا دربار بھی ہے جس کے آداب اور جس میں حاضر ہونے کے قاعدے ، سلام و
کلام کرنے کے طریقے خود ربِّ کریم نے بنائے، اپنی خلقت کو بتائے کہ اے میرے بندو !
جب اس دربار میں آؤ تو ایسے ایسے آداب کا خیال رکھنا اور خود فرمایا کہ اگر تم نے
اس کے خلاف کیا تو تم کو سخت سزا دی جائے گی ۔ پھر لطف یہ ہے کہ اب وہ شاہی دربار ہماری
آنکھوں سے چھپ گیا ۔ اس شہنشاہ نے ہم سے پردہ بھی فرمالیا، مگر اس کے آداب اب تک
وہی باقی، پھر اس دربار کے قوانین فقط انسانوں ہی پر جاری نہیں بلکہ وسعتِ سلطنت
کا یہ حال ہے کہ ہر عرشی، فرشی اس قاہر حکومت کا بندۂ بے زر۔ مسلمانو! معلوم ہے
وہ دربار کس کا ہے ؟ وہ دونوں جہاں کے مختار، حبیبِ کردگار، کونین کے شہنشاہ ،
رحمتہ اللعالمین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا دربار ہے ۔
دوستو! آؤ ہم تم کو قرآن کی سیر کرائیں اور دکھائیں کہ اس
نے اس سچے شہنشاہِ کونین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ کے کیا ادب
سکھائے:۔
(1) کچھ لوگ زمانۂ رسالت میں حضورِ انور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم سے پہلے ہی قربانی کر لیتے اور کچھ لوگ رمضان سے پیشتر روزے رکھنا
شروع کر دیتے ۔تو رب فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا
لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ
اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ترجمۂ
کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ
سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (پ26، الحجرات:1)
اس آیت نے ادب سکھایا کہ کوئی مسلمان اللہ کے حبیب صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے کلام میں ، چلنے میں، غرض کسی کام میں حضور صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے آگے نہ ہو ۔
(2) ارشاد فرمایا : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا
اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ
كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا
تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز
سےاور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو
کہ کہیں تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (پ26،الحجرات:2)یہ آیت حضرت ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ کے بارے میں
نازل ہوئی وہ اونچا سنا کرتے تھے ان کی آواز بھی اونچی تھی اور بات کرنے میں آواز
بلند ہو جایا کرتی تھی اور بعض اوقات اس سے حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کو اذیت ہوتی تھی۔
سبحان اللہ! کیا ادب سکھایا کہ اس بارگاہ میں حاضری دینے
والوں کو زور سے بولنے کی بھی اجازت نہیں ۔
(3) قبیلۂ بنی تمیم کے کچھ لوگ دوپہر کے وقت بارگاہِ رسالت
میں پہنچے۔ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم دولت خانہ میں آرام فرما رہے
تھے ان لوگوں نے حجرے شریف کے باہر سے پکارنا شروع کر دیا ۔ رب کریم کو پسند نہ
ہوا کہ کوئی اس دولہا کو پکار کر بلائے جس کے گھر میں جبرئیل بے اجازت نہیں جا
سکتے ، فوراً یہ آیت کریمہ نازل ہوئی : اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ
الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے
پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں ۔ (پ26،الحجرات: 4) اب اللہ پاک ادب سکھاتا ہے: اور اگر یہ لوگ اتنا صبر کرتے کہ آپ ان کے پاس
خود تشریف لاتے تو یہ ان کے لئے بہتر تھا ۔ اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (پ26،الحجرات: 5) ادب سکھا یا کہ اگر کوئی شخص ایسے وقت آئے کہ میرے محبوب
علیہ السّلام دولت خانہ میں ہیں تو ان کو آواز دیکر نہ بلاؤ بلکہ تشریف آوری کا
انتظار کرو ۔ جب وہ نازنین سلطان خود تشریف لائیں تب عرض و معروض کرو ۔
(4) جب سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت زینب رضی اللہُ
عنہا سے نکاح کیا اور ولیمہ کی عام دعوت فرمائی تو لوگ جماعت کی صورت میں آتے
اور کھانے سے فارغ ہو کر چلے جاتے تھے۔ آخر میں تین صاحب ایسے تھے جو کھانے سے
فارغ ہو کر بیٹھے رہ گئے اور انہوں نے گفتگو کا طویل سلسلہ شروع کر دیا اور بہت دیر
تک ٹھہرے رہے۔ مکان تنگ تھا تو اس سے گھر والوں کو تکلیف ہوئی اور حرج واقع ہوا کہ
وہ ان کی وجہ سے اپنا کام کاج کچھ نہ کر سکے۔ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم اٹھے اور ازواجِ رضی اللہُ عَنہُنَّ
کے حجروں میں تشریف لے گئے اور جب دورہ فرما کر تشریف لائے تو اس وقت تک یہ لوگ
اپنی باتوں میں لگے ہوئے تھے۔ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پھر واپس
ہو گئے تو یہ دیکھ کر وہ لوگ روانہ ہوئے، تب حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم دولت سرائے میں داخل ہوئے اور دروازے پر پردہ ڈال دیا، اس پر یہ آیت کریمہ
نازل ہوئی: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ
لَكُمْ اِلٰى طَعَامٍ غَیْرَ نٰظِرِیْنَ اِنٰىهُۙ-وَ لٰكِنْ اِذَا دُعِیْتُمْ
فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَ لَا مُسْتَاْنِسِیْنَ
لِحَدِیْثٍؕ- ترجمۂ کنز ُالایمان: اے ایمان
والو نبی کے گھروں میں نہ حاضر ہو جب تک اذن نہ پاؤ مثلا کھانے کے لیے بلائے
جاؤ نہ یوں کہ خود اس کے پکنے کی راہ تکو ہاں جب بلائے جاؤ تو حاضر ہو اور جب کھا
چکو تو متفرق ہو جاؤ نہ یہ کہ بیٹھے باتوں میں دل بہلاؤ ۔( پ 22، الاحزاب:53 ) اس
سے معلوم ہوا کہ بارگاہِ نبوت میں دعوت کھانے کے آداب یہ ہیں کہ کھانا پکنے سے
پہلے وہاں نہ پہنچو اور کھانا کھا کر پھر وہاں نہ بیٹھو... کیوں؟ اس کی وجہ قراٰن
بیان فرما رہا ہے: اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ
یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘-وَ اللّٰهُ لَا یَسْتَحْیٖ مِنَ
الْحَقِّؕ ترجمۂ کنز ُالایمان: بےشک اس میں نبی کو ایذا ہوتی تھی تو
وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے اور اللہ حق فرمانے میں نہیں شرماتا۔( پ 22، الاحزاب:53
)
(5) صحابۂ کرام علیہم الرضوان کا یہ طریقہ تھا کہ اگر محبوب
علیہ السّلام کے کسی لفظ کو نہ سمجھ سکتے تو عرض کرتے راعنا یا رسول الله، یا حبیب
اللہ دوبارہ فرما دیجئے تاکہ ہم سمجھ لیں ۔ لفظ راعنا یہود کی زبان میں گستاخی کا
لفظ تھا ۔ انہوں نے یہی لفظ دوسرے معنی کی نیت سے بولنا شروع کر دیا اور دل میں
خوش ہوئے کہ بارگاہِ رسالت میں بکواس بکنے کا موقع مل گیا ۔ وہ بھیدوں کا جاننے
والا اور نیتوں سے واقف رب ہے اس کو یہ کیسے پسند ہو سکتا تھا کہ کسی کو میرے
محبوب کی جناب میں گستاخی کا موقع ملے، آیت کریمہ آئی: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا
تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ
عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ
حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔(پ1،البقرۃ:104)