ادب ایک ایسا عمل ہے جس کی وجہ سے انسان کو بلندی ،اور عزت حاصل ہوتی ہے۔ جس کے اندر ادب نہیں ہوتا وہ بہت سی جگہ پر تنزلی اور بےعزتی کا شکار ہوتا ہے۔

با ادب با نصیب بے ادب کم نصیب

جو شخص جتنا عظیم ہوتا ہے اس کا ادب بھی اتنا ہی عظیم ہوتا ہے ۔میرے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا رتبہ بہت بلند ہے اسی لئے ان کا ادب بھی خود اللہ پاک نے لوگوں سے ارشاد فرما یا ہے۔ چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے۔

(1) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (پ26، الحجرات:1) تفسیر: اے ایمان والو! اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اجازت کے بغیر کسی قول اور فعل میں اصلاً ان سے آگے نہ بڑھنا تم پر لازم ہے کیونکہ یہ آگے بڑھنارسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ادب و احترام کے خلاف ہے۔(صراط الجنان ،تحت الآیۃ 1)

(2) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو ۔(پ26، الحجرات:2) تفسیر: اے ایمان والو! جب نبیٔ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تم سے کلام فرمائیں اور تم ان کی بارگاہ میں کچھ عرض کرو تو تم پر لازم ہے کہ تمہاری آواز ان کی آواز سے بلند نہ ہو بلکہ جو عرض کرنا ہے وہ آہستہ اور پَست آواز سے کرو۔( قرطبی ، الحجرات ، تحت الآیۃ: 2 ، 8 / 220 ، الجزء السادس عشر)

(3) لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ ترجَمۂ کنزُالایمان: ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو ۔(پ26،الحجرات:2) تفسیر: حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ندا کرنے میں ادب کا پورا لحاظ رکھو اور جیسے آپس میں ایک دوسرے کو نام لے کر پکارتے ہو اس طرح نہ پکارو بلکہ تمہیں جو عرض کرنا ہو وہ ادب و تعظیم اور توصیف و تکریم کے کلمات اور عظمت والے اَلقاب کے ساتھ عرض کرو جیسے یوں کہو: یا رسولَ اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، یا نَبِیَّ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کیونکہ ترکِ ادب سے نیکیوں کے برباد ہونے کا اندیشہ ہے اور اس کی تمہیں خبر بھی نہ ہو گی۔(ایضاً)

(4) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ- ترجمۂ کنزالعرفان: اے ایمان والو!راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو۔(پ1،البقرۃ:104) تفسیر: حضور پُرنور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے کلام فرمانے کے وقت ہمہ تن گوش ہو جاؤ تاکہ یہ عرض کرنے کی ضرورت ہی نہ رہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم توجہ فرمائیں کیونکہ دربارِ نبوت کا یہی ادب ہے۔(صراط الجنان تحت الآیۃ: 104)

(5) لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا ترجمۂ کنزُالعِرفان: (اے لوگو!) رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ بنالو جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے۔(پ18،النور:63) تفسیر: اے لوگو! میرے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پکارنے کو آپس میں ایسا معمولی نہ بنالو جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے کیونکہ جسے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پکاریں اس پر جواب دینا اور عمل کرنا واجب اور ادب سے حاضر ہونا لازم ہوجاتا ہے اور قریب حاضر ہونے کے لئے اجازت طلب کر ے اور اجازت سے ہی واپس ہو۔(بیضاوی، النور، تحت الآیۃ: 63)

اے عزیز! دیکھا آپ نے کے ہمارے نبیٔ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آداب کتنے عظیم ہیں کہ اللہ پاک خود آداب بیان فرما رہا ہے ۔

ہم خود بھی نبیٔ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ادب و احترام کریں اور اپنے بچوں کو بھی اس کی تعلیم دے تاکہ ہماری نسلیں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ادب کرنے والی ہوں۔

اللہ پاک ہم کو اللہ اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا با ادب بنائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم