قرآنِ کریم میں بارگاہِ نبوی
کے 5 آداب از بنتِ محمد یوسف، فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
پیارے پیارے
نبی، مکی مدنی مصطفٰےﷺکی شان اتنی بلند ہے کہ آپ کی بارگاہ کے آداب کسی عام ذات نے
بیان نہیں کئے، بلکہ خود الله پاک قرآنِ پاک میں جا بجا ارشاد فرما رہا ہے، کیونکہ
آپ اللہ پاک کو اس قدر محبوب تھے کہ کوئی آپ کی شان میں بے ادبی کرتا تو ساتھ ہی
اللہ پاک آیتیں نازل فرما کر اپنے محبوب کی شان بلند سے بلند فرما دیتا۔
بارگاہِ نبوی
کے 5 آداب آپ بھی ملاحظ فرمائیے۔
(1)شانِ
مصطفٰےبزبان خدا:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ
رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱) (پ26،الحجرات:1)
ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھواور اللہ
سے ڈرو بے شک اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔
مفتی احمد یار
خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فر ماتے ہیں: اس آیت کا شان نزول کچھ بھی ہو مگر یہ حکم سب
کو عام ہے یعنی کسی بات میں، کسی کام میں حضور ﷺ سے آگے ہونا منع ہے۔(شان حبیب ا لرحمن،ص224)
(2) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا
اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ (پ26،الحجرات:
2) ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو۔
ذہن میں رکھ آیۂ لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ بات کر طبع پیمبر کی نزاکت
دیکھ کر
(3) وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ
بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ
اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) (پ26،الحجرات: 2) ترجمہ کنز العرفان: اور ان کے حضور زیادہ بلند آواز سے
کوئی بات نہ کہو جیسےایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات کرتے ہو کہ کہیں تمہارے
اعمال بربادنہ ہو جا ئیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔
باب جبریل کے پہلو میں ذرا دھیرے سے فخر جبریل کو یوں کہتے
ہوئے پایا گیا
اپنی پلکوں سے درِیار پہ دستک دینا اونچی آواز ہوئی مگر عمر بھر
کا سرمایہ گیا
4)) اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ
مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴) وَ لَوْ اَنَّهُمْ
صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُ جَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-وَ اللّٰهُ
غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۵) (پ26،الحجرات:5-4)
ترجمہ کنز العرفان:بے شک جو لوگ آپ کو حجروں کے با ہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثربے
عقل ہیں اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ تم ان کے پاس خود تشریف لے آتے تو یہ ان کے
لئے بہتر تھا اور الله بخشنے والا مہربان ہے۔
آیت میں رسول
اللہ ﷺ کی جلالتِ شان کو بیان فرمایاگیا ہے کہ بارگاہ اقدس میں اس طرح پکارنا
جہالت اور بے عقلی ہے۔(مدارک،ص1151)
(5) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا
انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴) (پ1،البقرۃ:104)
ترجمہ کنز العرفان: اےایمان والو!راعنا نہ
کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں
کے لئے درد ناک عذاب ہے۔
جب حضور ﷺ
صحابہ کرام کو کچھ تعلیم و تلقین فرماتے تو وہ بھی کبھی درمیان میں عرض کرتے:راعنا
یا سول اللہ!
اس کے یہ معنی تھے کہ یار سول اللہ!ہمارے حال کی رعایت فرمائیے۔ یہودیوں کی لغت میں
یہ کلمہ بے ادبی کا معنی رکھتا تھا انہوں نے اسے بری نیت سے بولنا شروع کر دیا تو
اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں راعناکہنے
کی ممانعت اور“اُنظرنا “ کہنے کا حکم ہوا۔ (قرطبی، الجزء الثانی،
1/45-44)
لے سانس بھی آہستہ کہ دربار نبی ہے کہ کہیں کوئی گستاخی نہ ہو جائے
بارگاہِ نبوی
میں صحابہ کرم کا انداز بھی نرالا ہوا کرتا تھا جب وہ نبی پاکﷺ کی بارگاہ اقدس میں
حاضری سے مشرف ہوتے تو ایسے ہوتے جیسے اُن کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں اگر وہ سر اٹھائیں
تو وہ پرندے اڑجائیں۔ ایسا ادب ایسا عشق اللہ کریم ہمیں بھی نصیب فرمائے۔ ہماری جھولی
بھی دامن محبوب کے عشق وادب سے بھر دے اور جب ہم بھی بارگاہ نبوی میں حاضر ہوں تو
ہمیں بھی صحیح معنوں میں بارگاه رسالت کے آداب بجالانے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین ثم
آمین
بھول جاتے تھے صحابہ غم و آلام اپنے دیکھ لیتے تھے جو
سرکار کو آتے جاتے