قرآنِ کریم میں بارگاہِ نبوی
کے 5 آداب ازبنتِ خلیل، فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
ہم غریبوں کے آقا پہ بے حد درود ہم فقیروں کی ثَروَت پہ
لاکھوں سلام
حضور اقدس ﷺ
نے اپنی امت کی خاطر جو تکالیف برداشت فرمائیں، امت کی مغفرت کے لئے دربار باری
میں انتہائی بے قراری کے ساتھ گریہ و زاری فرمائی، اپنی امت کے لئے جو جو مشقتیں
اٹھائیں ان کا تقاضا ہے کہ امت پر حضور کے کچھ حقوق ہیں جن کو ادا کرنا ہر امتی پر
فرض و واجب ہے۔
ان حقوق میں ایک نہایت ہی اہم اور بہت ہی بڑا حق یہ بھی ہے کہ ہر امتی پر
فرض عین ہے کہ حضور اکرم ﷺ اور آپ سے نسبت و تعلق رکھنے والی تمام چیزوں کی تعظیم
و توقیر اور ان کا ادب و احترام کرے اور ہرگز ہرگز ان کی شان میں کوئی بے ادبی نہ
کرے کہ ایمان لانے کے بعد تعظیمِ مصطفٰی ہی مطلوب و مقصود ہے، آپ کی عظمت و محبت
پر ہی ایمان کا مدار ہے، ایمان مکمل ہی اس وقت ہوتا ہے جبکہ حضور کو اپنی جان، مال
اور اولاد سے بڑھ کر محبوب جانا جائے اور یہ ایک جانی ہوئی بات ہے کہ "ادب
پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں۔"
اللہ پاک نے
قرآن مجید میں کئی جگہ بارگاہِ نبوی کے آداب بیان کیے ہیں، آئیے ان میں سے چند
آداب جاننے کی سعادت حاصل کرتے ہیں، چنانچہ ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا
تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ
بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ
اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲)(پ
26، الحجرات:2) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو !اپنی آواز یں اونچی نہ کرو اس
غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلا کرنہ کہو جیسے آپس میں
ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ
ہو۔ اس آیت ِمبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کواپنے حبیب ﷺ کے
دو عظیم آداب سکھائے ہیں۔
1۔پہلا
ادب یہ ہے کہ اے ایمان والو! جب نبیٔ کریم ﷺ تم سے کلام فرمائیں
اور تم ان کی بارگاہ میں کچھ عرض کرو تو تم پر لازم ہے کہ تمہاری آواز ان کی
آواز سے بلند نہ ہو بلکہ جو عرض کرنا ہے وہ آہستہ اور پَست آواز سے کرو۔
2۔دوسرا
ادب یہ ہے کہ حضورِ اَقدس ﷺ کو ندا کرنے میں ادب کا پورا لحاظ رکھو
اور جیسے آپس میں ایک دوسرے کو نام لے کر پکارتے ہو اس طرح نہ پکارو بلکہ تمہیں جو
عرض کرنا ہو وہ ادب و تعظیم اور توصیف وتکریم کے کلمات اور عظمت والے اَلقاب
کے ساتھ عرض کرو جیسے یوں کہو: یا رسولَ اللہ!، یا نَبِیَّ
اللہ!، کیونکہ ترکِ ادب سے نیکیوں کے برباد ہونے کا اندیشہ ہے اور اس کی
تمہیں خبر بھی نہ ہو گی۔ (تفسیر قرطبی، الحجرات، تحت الآیۃ:2، 8 / 220)
3۔ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نَاجَیْتُمُ
الرَّسُوْلَ فَقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰىكُمْ صَدَقَةًؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ
لَّكُمْ وَ اَطْهَرُؕ-فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۱۲) (المجادلۃ: 12) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو جب تم رسول سے کوئی بات
آہستہ عرض کرنا چاہو تو اپنی عرض سے پہلے کچھ صدقہ دے لو یہ تمہارے لیے بہتر اور
بہت ستھرا ہے پھر اگر تمہیں مقدور نہ ہو تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ اس
آیت مبارکہ میں بارگاہ نبوی کا ایک اور ادب بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے
ایمان والو! جب تم رسولِ کریم ﷺ سے تنہائی میں کوئی بات عرض کرنا چاہو تو
اپنی عرض سے پہلے کچھ صدقہ دے لو کہ اس میں بارگاہِ رسالت میں
حاضر ہونے کی تعظیم اور فقراء کا نفع ہے۔یہ عرض کرنے سے پہلے صدقہ کرنا تمہارے لیے
بہت بہتر ہے کیونکہ اس میں اللہ پاک اور اس کے حبیب کی اطاعت ہے اور یہ تمہیں خطاؤں سے
پاک کرنے والا ہے، پھر اگر تم اس پر قدرت نہ پاؤ تو اللہ پاک بخشنے والا مہربان
ہے۔( خازن، المجادلۃ، تحت الآیۃ:12،4/241-242)
4۔ارشاد
فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا
تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُمْ اِلٰى طَعَامٍ
غَیْرَ نٰظِرِیْنَ اِنٰىهُۙ-وَ لٰكِنْ اِذَا دُعِیْتُمْ فَادْخُلُوْا فَاِذَا
طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَ لَا مُسْتَاْنِسِیْنَ لِحَدِیْثٍؕ-اِنَّ ذٰلِكُمْ
كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘-وَ اللّٰهُ لَا یَسْتَحْیٖ مِنَ
الْحَقِّؕ-
ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والونبی کے گھروں میں نہ حاضر ہو جب تک اذن نہ پاؤ
مثلا کھانے کے لیے بلائے جاؤ نہ یوں کہ خود اس کے پکنے کی راہ تکو ہاں جب بلائے
جاؤ تو حاضر ہو اور جب کھا چکو تو متفرق ہو جاؤ نہ یہ کہ بیٹھے باتوں میں دل بہلاؤ
بے شک اس میں نبی کو ایذا ہوتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے اور الله حق
فرمانے میں نہیں شرماتا۔ اس آیت مبارکہ میں بھی بارگاہ نبوی کے دو آداب بیان کیے
گئے۔
اے ایمان
والو!میرے حبیب ﷺ کے گھروں میں یونہی حاضر نہ ہو جاؤ بلکہ جب اجازت ملے جیسے
کھانے کیلئے بلایا جائے تو حاضر ہوا کرو اور یوں بھی نہ ہو کہ خودہی میرے حبیب ﷺ
کے گھر میں بیٹھ کر کھانا پکنے کاانتظار کرتے رہو، ہاں جب تمہیں بلایا جائے تو اس
وقت ان کی بارگاہ میں حاضری کے احکام اور آداب کی مکمل رعایت کرتے ہوئے ان کے
مقدس گھر میں داخل ہوجاؤ۔
5۔ جب کھانا
کھا کر فارغ ہو جاؤتو وہاں سے چلے جاؤ اور یہ نہ ہو کہ وہاں بیٹھ کر باتوں سے دل
بہلاتے رہو کیونکہ تمہارا یہ عمل اہلِ خانہ کی تکلیف اور ان کے حرج کاباعث ہے۔
بیشک تمہارا یہ عمل گھر کی تنگی وغیرہ کی وجہ سے میرے حبیب ﷺ کو ایذا دیتا تھا
لیکن وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے اور تم سے چلے جانے کے لئے نہیں فرماتے تھے
لیکن اللہ تعالیٰ حق بیان فرمانے کو ترک نہیں فرماتا۔(روح البیان،
الاحزاب، تحت الآیۃ: 7،53/213-214)
یہی وجہ ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضور اقدس ﷺ کا اس قدر ادب و
احترام کرتے تھے اور آپ کی مقدس بارگاہ میں اتنی تعظیم و تکریم کا مظاہرہ کرتے تھے
کہ حضرت عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ جب کہ مسلمان نہیں ہوئے تھے اور کفار مکہ
کے نمائندہ بن کر میدان حدیبیہ میں گئے تھے تو وہاں سے واپس آ کر انہوں نے کفار کے
مجمع میں علی الاعلان یہ کہا تھا کہ اے میری قوم ! میں نے بادشاہ روم قیصر اور
بادشاہ فارس کسری اور بادشاہ حبشہ نجاشی سب کا دربار دیکھا ہے مگر خدا کی قسم !
میں نے کسی بادشاہ کے درباریوں کو اپنے بادشاہ کی اتنی تعظیم کرتے نہیں دیکھا جتنی
تعظیم محمدکے اصحاب محمد کی کرتے ہیں۔(بخاری، 1/380) اس روایت سے
یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حضور ﷺ کے اصحاب کبار اپنے آقائے نامدار کے دربار
میں کس قدر تعظیم و تکریم کے جذبات سے سرشار رہتے تھے۔ہمیں بھی چاہئے کہ ان نفوس
قدسیہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اور قرآن کے احکام پر عمل کرتے ہوئے ہم بھی بارگاہ
نبوی کے آداب کو ملحوظ خاطر رکھیں اور مدینہ پاک کی حاضری کے وقت ان پر عمل بھی
کریں۔
اللہ پاک سے
دعا ہے کہ ہمیں پیارے مدنی آقا ﷺ اور آپ سے نسبت و تعلق رکھنے والی ہر چیز کی
تعظیم و ادب کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ
با ادب ہے بانصیب اے اَہل دِیں بے ادب سے بدنصیبی ہے قریں