اسماءِ حُسْنٰی کے فضائل: اَحادیث میں اسماءِ حسنیٰ کے بہت فضائل بیان کئے گئے ہیں چنانچہ

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک اللہ پاک کے ننانوے نام ہیں یعنی ایک کم سو، جس نے انہیں یاد کر لیا وہ جنت میں داخل ہوا۔(بخاری، کتاب الشروط، 2 / 229، الحديث: 2736)

اللہ پاک نے قرآنِ پاک میں ارشاد فرمایا:وَ لِلّٰهِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا۪-

ترجمہ کنزالایمان: اور اللہ ہی کے ہیں بہت اچھے نام تو اسے ان سے پکارو ۔(پ 9 ،الأعراف:180)

اسماءِ حُسْنٰی سے 10 کا اجمالاً ذکر

(1،2) الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ۔الرَّحْمَنُ دنیا میں مومنوں اور کافروں پر رحم کرنے والا اور، الرَّحِيمُ آخرت میں صرف مؤمنوں پر رحم فرمانے والا۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ اگر مومن جان لیتا کہ اللہ پاک کے پاس کتنا عذاب ہے تو کوئی بھی اس کی جنت کی امید نہ رکھتا اور اگر کافر جان لیتاکہ اللہ پاک کے پاس کتنی رحمت ہے تو اس کی جنت سے کوئی ناامید نہ ہوتا ۔(مسلم، کتاب التوبۃ، ،ص:1473،الحدیث:23(2755))

الملک:جس کا معنیٰ ہے بادشاہ جو چاہے کرے اور اس کے فعل پر کسی کو مجال اعتراض نہ ہو۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ پاک ہر رات آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے جس وقت رات کا ابتدائی حصہ گذر جاتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میں بادشاہ ہوں کون ہے جو مجھ سے دعا کرے اور میں اس کی دعا قبول کروں، کون ہے جو مجھ سے سوال کرے اور میں اسے عطا کروں، کون ہے جو مجھ سے مغفرت مانگے اور میں اسے معاف کر دوں، اللہ پاک اسی طرح فرماتا رہتا ہے یہاں تک کہ صبح روشن ہوجاتی ہے۔

( صحیح مسلم ، باب الترغیب فی الدعائ و الذکر فی آخر اللیل و الاجابۃ فیہ ، رقم الحدیث 1773، ص 307، مطبوعہ دار السلام للنشر و التوزیع ، المملکۃ العربیۃ السعودیۃ، الطبعۃ الثانیۃ ، 1421ھ ، 2000ء)

القدوس: المنزۃ من کل نقص والطاھر من کل عیب۔ جو ہر نقص سے منزہ اور ہر عیب سے پاک ہو۔ (ضیاء القرآن، جلد5، تفسیر سورۃ الحشر تحت الآیۃ 23، ص 186)

حدیث پاک میں ہے: أَنَّ رَسُول اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم کَانَ یَقُولُ فِی رُکُوعِہِ وَسُجُودِہِ سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلاَءِکَۃِ وَالرُّوحِ

” حضرت مطرف بن عبد اللہ بن شخیر کہتے ہیں کہ مجھے عائشہ صدیقہ نے بتایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رکوع اور سجدے میں یہ دعاپڑھا کرتے تھے۔ ملائکہ اور جبرائیل امین کے رب ہر قسم کی تسبیح و تقدیس تیرے لئے ہے۔ “(صحیح مسلم ، باب ما یقال فی الرکوع ، رقم الحدیث 1091، ص 202 ، مطبوعہ دار السلام للنشر و التوزیع ، المملکۃ العربیۃ السعودیۃ، الطبعۃ الثانیۃ ، 1421ھ ، 2000ء)

السّلام :ای ذو سلامۃ من النقائص۔ یعنی ہر قسم کی خامیوں سے محفوظ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کو آلام و مصائب سے بچاتا ہے۔( ضیاء القرآن ، تفسیر سورۃ الحشر تحت الآیۃ 23، 5/ 186)

حدیث پاک میں ہے:کَانَ رَسُول اللَّہ صلی اللہ علیہ وسلم إِذَا انْصَرَفَ مِنْ صَلاَتِہِ اسْتَغْفَرَ ثَلاَثًا وَقَال اللَّہُمَّ أَنْتَ السَّلاَمُ وَمِنْکَ السَّلاَمُ تَبَارَکْتَ ذَا الْجَلاَلِ وَالإِکْرَامِ

حضرت ثوبان بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوتے تو تین مرتبہ استغفار کرتے اور یہ دعا پڑھتے۔ ” اے اللہ تو سلامتی والا ہے اور سلامتی تجھی سے حاصل ہوتی ہے بیشک تو بابرکت اور جلال واکرام والا ہے۔

(صحیح مسلم ، باب استحباب الذکر بعد الصلاۃ ، رقم الحدیث 1334، ص 239، مطبوعہ دار السلام للنشر و التوزیع ، المملکۃ العربیۃ السعودیۃ، الطبعۃ الثانیۃ ، 1421ھ ، 2000ء)

المؤمن : امن دینے والا ‘ کافروں کو ظلم سے اور مؤمنوں کو عذاب سے۔( حاشیہ تفسیر جلالین مکتبۃ البشریٰ، 3 / 499،سورۃ الحشر تحت الآیۃ 23)

الشاھد۔ گواہ۔ اور اس کو بھی کہتے ہیں جو کسی کو خوف سے امان دے۔

( ضیاء القرآن، جلد5، تفسیر سورۃ الحشر تحت الآیۃ 23، ص 186)

حضرت مسروق کہتے ہیں ہم حضرت ابو موسیٰ کے ساتھ تھے رات ایک باغ میں ٹھہرے تو آپ رات کو اٹھے اچھی قرأت کی اور یہ دعا مانگی «اللَّهُمَّ أنْتَ مُؤْمِنٌ تُحِبُّ المُؤْمِنَ، مُهَيْمِنٌ تُحِبُّ المُهَيْمِنَ، سَلامٌ تُحِبُّ السَّلامَ، صادِقٌ تُحِبُّ الصّادِقَ»

اے اللہ! تو مؤمن (امان دینے والا) ہے مؤمن کو پسند کرتا ہے، مُھَیمِن (نگہبان)ہے مھیمن کو پسند کرتا ہے، سلام (سلامتی والا) ہے سلامتی کو پسند کرتا ہے، صادق (سچا) ہے صادق کو پسند کرتا ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 7/141)

العزیز: غالب ، بے مثال ،شدید ، قوی ،اور عزت دینے والے ہیں۔وَ اِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ۠(۹)ترجمہ کنزالایمان : اور بے شک تمہارا رب ضرور وہی عزت والا مہربان ہے۔( سورۃ الشعراء ، الآیۃ 9)

یعنی اے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کا ربّ ہی یقینی طور پر عزت والا ہے، وہی غالب اور کافروں کو سزا دینے پر قدرت رکھنے والا ہےاور وہی بہت بڑا مہربان ہےاور اسی نے اپنی رحمت سے مشرکوں کو فوری گرفت نہیں فرمائی بلکہ انہیں (حال سنوارنے کی) مہلت دی ہے۔(روح البیان، الشعراء، تحت لآیۃ264/6،9)

الجبار:سب پر غالب بڑی عظمت والا۔حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: يَطْوي اللهُ السَّماواتِ يومَ القيامةِ ثُمَّ يأخُذُهنَّ بيدِه اليمنى ثُمَّ يَطْوي الأَرَضينَ ثُمَّ يأخُذُهنَّ بشمالِه ثُمَّ يقولُ أنا المَلِكُ أين الجبَّارونَ أين المُتكبِّرونَ؟”روز قیامت اللہ آسمانوں کو لپیٹ کر اپنی شان کے مطابق اپنے دائیں ہاتھ میں لے لے گا پھر اللہ ساتوں زمینوں کو لپیٹ کر اپنی شان کے مطابق اپنے بائیں ہاتھ میں لے لے گا اور کہے گا: میں ہوں بادشاہ، کہاں ہیں جو سرکش بنے پھرتے تھے؟ کہاں ہیں جو متکبر بنے پھرتے ۔ (مجمع الزوائد ، 10/347 )

10۔المتكبر:التکبر۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے کہ: کبریائی میری چادر ہے اور عظمت میری ازار ہے۔ جو ان کو اوڑھنے کی کوشش کرے گا میں اس کی کمر توڑ دوں گا اور اس کو دوزخ میں پھینک دوں گا۔ (ضیاء القرآن ، 5 / 185، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور)