اللہ تبارک و تعالی قرآن پاک میں
ارشاد فرماتا ہے:
ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی
الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَهُمْ بَعْضَ
الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ(۴۱)
ترجمۂ کنزالایمان:"چمکی خرابی خشکی اور تری میں ان برائیوں سے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کمائیں، تاکہ انہیں ان کے بعض کوتکوں کا مزہ چکھائیں، کہیں وہ باز آئیں۔(پ21، الروم:41)
جب دنیا کے لوگ اللہ پاک کی
نافرمانیوں میں حد سے آگے نکل جاتے ہیں، اللہ پاک کے احکاموں کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں، سود، رشوت، خیانت، بددیانتی، ظلم و ستم، بدفعلی، قتل و غارت ان کی فطرت بن جاتی ہے، اللہ پر ستی کی بجائے شہوت پرستی، عیش پرستی عام ہوجاتی ہے تو اللہ عزوجل ان سے
اپنی رحمت کی بارش کو روک لیتا ہے، جس سے نہریں،
دریا خشک ہو جاتے ہیں، زمین میں سبزہ کا نام ونشان باقی نہیں رہتا، فصلیں تباہ و برباد ہوجاتی ہیں، اتنی قحط
سالی ہوتی ہے کہ امیر سے لے کر غریب تک، گدا
سے لے کر بادشاہ تک لوگ متاثر ہوجاتے ہیں اور انسانوں کے علاوہ جانوروں کے لئے
بلائے جان بن جاتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ
ہمارے اعمال خراب ہوتے ہیں، ورنہ اللہ
تبارک و تعالی کے فضل و کرم میں کوئی شک نہیں،
ترجمۂ کنزالایمان:"چمکی خرابی خشکی اور تری میں ان برائیوں سے جو لوگوں کے ہاتھوں نے
کمائیں، تاکہ انہیں ان کے بعض کوتکوں کا
مزہ چکھائیں، کہیں وہ باز آئیں۔(پ21،
الروم:41)
اس سے ثابت ہوا کہ قحط اور بارش کا رُک جانا، کھیتوں کی خرابی اور ہر شے کی بے برکتی ہماری بد اعمالیوں کا نتیجہ ہے اور
یہ کوئی نئی بات نہیں، بلکہ ہمیشہ سے اللہ
پاک کی مشیت رہی ہے، قرآن پاک میں اللہ
پاک نے (قومِ عاد) کا واقعہ تفصیلاً بیان فرمایا ہے، اس ظالم بد اعمال قوم پر تین سال تک بارش روک دی گئی۔
قومِ عاد کا تعارف:
قومِ عاد مقامِ "احقاف"
میں رہتی تھی، جو عمان و حضر موت کے
درمیان ایک بڑا ریگستان تھا، ان کے مورثِ
اعلی کا نام(عادبن عوص بن ارم بن سام بن
نوح) ہے، پوری قوم کے لوگ انہیں مورثِ
اعلی "عاد"کے نام سے پکارنے لگے۔
جیساکہ اللہ تبارک وتعالی
کاارشادہے:
ترجمۂ کنزالایمان:" اور یاد کرو عاد کے ہم قوم کو جب
اس نے ان کو سرزمینِ اَحقاف میں ڈرایا۔(پ26،احقاف:
21)
قومِ عاد کی طویل عمریں، بڑے قد اور مضبوط جسم والے تھے۔
اللہ تبارک وتعالی کاارشادہے: "وَّ زَادَكُمْ فِی الْخَلْقِ
بَصْۜطَةً ۚ-
ترجمۂ کنزالایمان:"اور تمہارے بدن کا پھیلاؤ بڑھایا۔"(پ8، اعراف: 69)
قومِ عاد میں لمبے لوگوں کا قد
سوگز اور پست لوگوں کا ساٹھ گز تھا، جسمانی طاقت جس کی بناء پر وہ یہ کہتے تھے۔وَ قَالُوْا مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً ؕ
ترجمہ کنزالایمان:"اور بولے ہم سے زیادہ کس کا زور ۔"(پ24، حم
السجدۃ: 15)
ان کا ایک ہی شخص بھاری پتھر پہاڑ
سے اُکھیڑ کر جہاں چاہتا، لے جاتا تھا، (اتنی
طاقت ان کو اللہ پاک نے عطا کی تھی)
جیسا کہ اللہ تبارک و تعالی کا
ارشادِ پاک ہے:
ترجمۂ کنزالایمان:"کیا تم نے نہ دیکھا تمہارے
ربّ نے عاد کے ساتھ کیسا کیا۔"(پ30، الفجر: 6)
وہ عاد ارم حد سے
زیادہ طول والے کے ان جیسا شیروں میں کوئی پیدا ہی نہیں ہوا، ان کا بہت لمبا آدمی 400 گز کا ہوتا تھا، اس کے علاوہ ان کے مکانات اور محلات عالیشان تھے،
جو قیمتی پتھروں اور مصالحوں سے تیار کئے
جاتے تھے ، باغات اور سیرگاہوں سے ملک کا ملک کا آراستہ تھا، غرض یہ کہ ہر قسم کے عیش و آرام کے اسباب اس قوم
کو حاصل تھے، پہاڑوں کو تراش کر ان لوگوں
نے سردیوں اور گرمیوں کے لئے الگ الگ محلات تیار کررکھے تھے، ان کو ہر قسم کی عیش وآرام کے اسباب حاصل تھے، جو ایک ترقی پذیر قوم کو حاصل ہوتے ہیں، اللہ پاک خود ان کے عیش و آرام کی خبر دیتا ہے، اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے:
اَمَدَّكُمْ بِاَنْعَامٍ وَّ بَنِیْنَۚۙ(۱۳۳)وَ جَنّٰتٍ وَّ
عُیُوْنٍۚ(۱۳۴)
ترجمۂ کنزالایمان:" تمہاری مدد کی چوپایوں اور بیٹوںاور باغوں اور چشموں سے۔(پ19، الشعراء: 133-134)
قومِ عاد اپنے آپ کو سُپرپاور قوم
تصور کرتی تھی، یہ قوم ڈیل ڈول، جسمانی
طاقت میں بہت زیادہ تھی، ان کا دعویٰ تھا
کہ دنیا میں ہم سے زیادہ کوئی طاقتور نہیں ہے، آخری اس فراوانی، عیش و سرور نے اس قوم کو شکرگزار رہنے کے بجائے
کُفر میں مبتلا کردیا، چنانچہ وہ کفر اور
بت پرستی کی گندگیوں میں پڑ گئے اور اس
خدا کو بھُلا بیٹھے جس نے محض اپنے فضل و کرم سے اپنے انعامات کی ان پر بارش برسائی تھی، لہٰذا اس ربّ کریم نے اس قوم کی رہبری اور ہدایت
کے لئے حضرت ہود علی نبینا و علیہ الصلاۃ
و السلام کو مبعوث فرمایا، حضرت ہود علی
نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے انہیں تبلیغ و ہدایت فرمائی اور اپنی قوم کو مخاطب
ہو کر فرمایا:
قرآن پاک میں ہے،
ترجمۂ کنزالایمان:" اے میری قوم اللہ کو پوجو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ۔ (پ12، ھود:50)
تو بد شعار قوم نے بجائے ہدایت پانے کے جواب دیا۔
ترجمۂ کنزالایمان:"اس کی قوم کے سردار بولے بے
شک ہم تمہیں بے وقوف سمجھتے ہیں۔"
(پ8، اعراف: 66)
اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے:
قَالُوْا سَوَآءٌ عَلَیْنَاۤ اَوَ
عَظْتَ اَمْ لَمْ تَكُنْ مِّنَ الْوٰعِظِیْنَۙ(۱۳۶)
ترجمۂ کنز الایمان: بولے ہمیں برابر ہے چاہے تم نصیحت کرو یا ناصحوں میں نہ
ہو ۔(پ19، الشعراء: 136)
اور کہتے: قرآنِ پاک میں ہے، ترجمۂ
کنزالایمان:"تو لاؤ جس کا ہمیں وعدہ
دیتے ہو، اگر سچے ہو۔"(پ8، اعراف: 70)
حضرت ہود علی نبینا و علیہ الصلاۃ
والسلام نے فرمایا:
فَانْتَظِرُوْۤا
اِنِّیْ مَعَكُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ(۷۱)۔
ترجمۂ کنزالایمان:" تو راستہ دیکھو میں بھی تمہارے ساتھ دیکھتا ہوں۔(پ8،اعراف:71)
شیخ الحدیث حضرت علامہ مولانا عبد
المصطفی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب عجائب القرآن مع غرائب القرآن میں تحریر
کرتے ہیں:
قومِ عاد کی آندھی:
قومِ عاد (احقاف) میں رہتی
تھی، جو عمان و حضر موت کے درمیان ایک بڑا
ریگستان ہے، ان کے مورثِ اعلی (عادبن عوص
بن ارم بن سام بن نوح )ہے، پوری قوم کے لوگ ان کو مورثِ اعلی (عاد)کے نام
سے پکارنے لگے، یہ لوگ بت پرست اور بہت
بداعمال و بد کردار تھے، اللہ تعالی نے
اپنے پیغمبر حضرت ہود علیہ السلام کو ان لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجا، مگر اس قوم نے
اپنے تکبر اور سر کشی کی وجہ سے حضرت ہود علیہ السلام کو جھٹلا دیا اور اپنے کفر
میں اڑے رہے، حضرت ہود علیہ السلام بار بار ان سرکشوں کو عذابِ الٰہی سے ڈراتے
رہے، مگر اس شریر قوم نے نہایت بے باکی
اور گستاخی کے ساتھ اپنے نبی سے یہ کہہ دیا کہ اللہ تبارک وتعالی ارشاد فرماتا ہے:
قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ
قَوْمِهٖۤ اِنَّا لَنَرٰىكَ فِیْ سَفَاهَةٍ وَّ اِنَّا لَنَظُنُّكَ مِنَ
الْكٰذِبِیْنَ
ترجمۂ کنزالایمان:" اس کی قوم کے سردار بولے بے شک ہم
تمہیں بیوقوف سمجھتے ہیں اور بے شک ہم تمہیں جھوٹوں میں گمان کرتے ہیں (پ8،اعراف:66)
قرآن پاک میں ارشاد ہے:
قَالَ یٰقَوْمِ لَیْسَ بِیْ سَفَاهَةٌ وَّ
لٰكِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ اُبَلِّغُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ
اَنَا لَكُمْ نَاصِحٌ اَمِیْنٌ۔"
ترجمۂ کنز الایمان: کہا اے میری قوم مجھے بے وقوفی سے کیا علاقہ ، میں تو پروردگار عالم کا رسول ہوں، تمہیں اپنے
ربّ کی رسالتیں پہنچاتا ہوں اور تمہارا مُعَتَمدخیر خواہ ہوں۔ " (پ8، اعراف:
67-68)
(لَیْسَ بِیْ سَفَاهَةٌ۔ میرے ساتھ بے وقوفی کاکوئی تعلق نہیں)
اس کی تفسیر میں شیخ الحدیث
والتفسیر حضرت علامہ مولانا الحاج مفتی ابو الصالح مفتی محمد قاسم القادری مدظلہ
العالی تفسیر صراط الجنان، جلد سوم، صفحہ نمبر 353 میں لکھتے ہیں:" کافروں نے
گستاخی کرکے حضرت ہود علی نبینا و علیہ الصلاۃ و السلام کو معاذاللہ بیوقوف کہا، جس پر آپ علیہ السلام نے بڑے تحمل سے جواب دیا
کہ بیوقوفی کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور اس کی وجہ بالکل واضح ہے کہ انبیاء
کرام علیہم السلام کامل عقل والے ہوتے ہیں اور ہمیشہ ہدایت پر ہوتے ہیں، تمام جہان کی عقل نبی کی عقل کے مقابلے میں ایسی
ہے، جیسے سمندر کا ایک مو تی، کیونکہ نبی تو وحی کے ذریعےاپنے ربّ عزوجل سے علم و عقل حاصل کرتا ہے
اور اس چیز کے برابر کوئی دوسری چیز کا ہونا
محال ہے۔
ترجمۂ کنزالایمان:"کیا تم ہمارے پاس اس لئے
آئے ہو کہ ہم ایک اللہ کو پوجیں اور جو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے انھیں چھوڑ دیں
تو لاؤ جس کا ہمیں وعدہ دیتے ہو اگر سچے
ہو۔"(پ8، اعراف: 70)
آخر عذابِ الہی کی جھلکیاں شروع
ہوگئیں، تین سال تک بارش ہی نہیں ہوئی اور ہر طرف قحط و خشک سالی کا دور دورہ ہو گیا، یہاں تک کہ لوگ اناج کے دانے دانے کو ترس
گئے، اس زمانے کا دستور تھا کہ جب کوئی
بلا اور مصیبت آتی تھی تو لوگ مکۂ معظمہ جاکر خانہ کعبہ میں دعائیں مانگتے تھے، تو بلائیں ٹل جاتی تھیں۔
چنانچہ ایک جماعت مکہ معظمہ گئی، اس جماعت میں مرثد بن سعد نامی ایک شخص بھی تھا، جو مؤمن تھا، مگر اپنے ایمان کو قوم سے
چھپائے ہوئے تھا، جب ان لوگوں نے کعبہ
معظمہ میں دعا مانگنی شروع کی، تو مرثد بن سعد کا ایمانی جذبہ بیدار ہو گیا اور اس نے تڑپ کر
کہا کہ اے میری قوم! تم لاکھ دعائیں مانگو، مگر خدا کی قسم!اس وقت تک پانی
نہیں بھر ے گا، جب تک تم اپنے نبی حضرت
ہود علیہ السلام پر ایمان نہ لاؤ گے، حضرت
مرثد بن سعد نے جب اپنا ایمان ظاہر کردیا تو قومِ عاد کے شریروں نے ان کو مار پیٹ
کر الگ کر دیا اور دعائیں مانگنے
لگے، اس وقت اللہ نے تین بادل بھیجے، ایک سفید، ایک سرخ اور ایک سیاہ اور آسمان سے
ایک آواز آئی کہ"اے قومِ عاد! تم لوگ
اپنی قوم کے لئے ان تین بادلوں میں سے کسی ایک بادل کو پسند کر لو۔"
ان لوگوں نے کالی بدلی کو پسند کر لیا اور یہ لوگ
اس خیال میں مگن تھے کہ کالی بدلی خوب زیادہ بارش دے گی، چنانچہ وہ ابرِ سیاہ قومِ عاد کی آبادیوں کی
طرف چل پڑا، قومِ عاد کے لوگ کالی بدلی کو
دیکھ کر بہت خوش ہوئے، حضرت ہود علیہ
السلام نے فرمایا:" کہ اے میری قوم! دیکھ لو! عذابِ الہی اَبر کی صورت میں
تمہاری طرف بڑھ رہا ہے۔"
مگر قوم کے گستاخوں نے اپنے نبی
کو جھٹلایا اور کہاکہ کہاں کا عذاب اور کیسا عذاب؟"یہ تو بادل ہیں، جو ہمیں بارش دینے کے لئے آ رہا ہے۔"یہ
بادل پچھم کی طرف سےآبادیوں کی طرف برابر بڑھتا رہا اور ایک دم ناگہاں اس میں سے ایک
آندھی نکلی، جس سے اونٹ مع سُو ار کو اُڑا کر کہاں سےکہاں پھینک دیتی، پھر اتنی زور سے آئی کہ درختوں کو اُکھاڑ کر لےگئی، یہ دیکھ کر قومِ عاد کے لوگ اپنے محلوں میں
جاکر دروازے بند کر دئیے، مگر آندھی کے
جھونکے نے نہ صرف دروازوں بلکہ پوری عمارتوں کو جھنجھوڑ کر ان کی اینٹ سے
اینٹ بجا دی، سات رات اور آٹھ دن مسلسل یہ
آندھی چلتی رہی، یہاں تک کہ قومِ عاد کا
ایک ایک آدمی فنا ہو گیا اور اس قوم کا
ایک بچہ بھی باقی نہ رہا، جب آندھی ختم
ہوئی تو اس قوم کے لوگوں کی لاشیں زمین پر اس طرح پڑی ہوئی تھیں، جس طرح کھجوروں
کے درخت اُ کھڑکر زمین پر پڑے ہوں، چنانچہ
ارشادِ ربّانی ہے،
وَ اَمَّا عَادٌ فَاُهْلِكُوْا بِرِیْحٍ صَرْصَرٍ
عَاتِیَةٍۙ سَخَّرَهَا عَلَیْهِمْ سَبْعَ لَیَالٍ وَّ ثَمٰنِیَةَ اَیَّامٍۙ-حُسُوْمًاۙ-فَتَرَى
الْقَوْمَ فِیْهَا صَرْعٰىۙ-كَاَنَّهُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِیَة ٍ ۚ فَهَلْ تَرٰى لَهُمْ مِّنْۢ بَاقِیَةٍ۔
ترجمۂ کنزالایمان:"اور رہے عادوہ ہلاک کئے گئے، نہایت سخت گرجتی
آندھی سے وہ ان پر قوت سے لگا دی، سات راتیں اور آٹھ دن لگاتار تو ان لوگوں کو ان میں دیکھو بچھڑے ہوئے، گویا وہ کھجور کے ڈنڈ(سوکھے تنے)ہیں گرے ہوئے
تو تم ان میں کسی کو بچا ہوا دیکھتے
ہو۔"(پ29، الحاقۃ: 6-8)
پھر قدرتِ خداوندی سے کالے رنگ کے
پرندوں کا ایک غول نمودار ہوا، جنہوں نے
ان کی لاشوں کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا اور حضرت ہود علیہ السلام نے اس بستی
کو چھوڑ دیا اور چند مؤمنین جو ایمان لائے تھے، ساتھ لے کر مکہ مکرمہ چلے گئے اور آخر زندگی تک بیت اللہ شریف میں عبادت
کرتے رہے۔
درسِ ہدایت:
قرآن کریم کے اس دردناک واقعے سے
یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ (قومِ عاد) جو بڑی طاقتور اور قد آور قوم تھی، ان لوگوں کی مالی خوشخالی بھی نہایت مستحکم
تھی، کیونکہ لہلہاتی کھیتیاں اور ہرے بھرے باغات ان کے پاس تھے، پہاڑوں کو تراش تراش کر ان لوگوں نے گرمیوں اور سردیوں کے لئے الگ الگ محلات تعمیر کئے
تھے، ان لوگوں کو اپنی کثرت اور طاقت پر
بڑا اعتماد تھا، اپنے تمدن اور سامانِ عیش وعشرت پر بڑا ناز تھا، مگر کفر اور بداعمالیوں و بدکاریوں کی نحوست نے
ان لوگوں کو قہر ِالہی کے عذاب میں اس طرح گرفتار کر دیا کہ آندھی کے جھونکوں اور
جھٹکوں نے ان کی پوری آبادی کو جھنجھور کر
چکنا چور کر دیا اور اس پوری قوم کے وجود کو صفحہ ہستی سے اس طرح مٹا
دیا کہ ان کی قبروں کا کہیں بھی نشان باقی نہ رہا، تو پھر بھلا ہم لوگوں جیسی کمزور قوموں کا
کیا ٹھکانہ ہے کہ عذابِ الہی کے جھٹکوں کی
تاب لا سکیں، اس لئے جن لوگوں کو اپنی اور
اپنی نسلوں کی خیریت و بقا منظور ہے،
انہیں لازم ہے کہ اللہ عزوجل اور رسول صلی
اللہ علیہ وسلم کی نافرمانیوں اور بد
اعمالیوں سے ہمیشہ بچتے رہیں، اپنی کوشش اور طاقت بھر اعمالِ صالح اور
نیکیاں کرتے رہئے، ورنہ قرآن مجید کی آیتیں ہمیں جھنجھوڑ کر یہ سبق دے رہی ہیں کہ نیکی کی تاثیر آبادی اور بدی کی تاثیر بربادی۔
قرآن مجید میں پڑھ لو کہ
وَالْمُؤتَفِکٰتُ بِالْخَاطِئَۃِ۔یعنی"بہت سی بستیاں اپنی بدکاریوں اور بد
اعمالیوں کی وجہ سے ہلاک و برباد کر دی گئیں۔"(پ29، الحاقۃ: 9)
دوسری آیت میں یہ بھی پڑھ لو کہ
وَ لَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰۤى اٰمَنُوْا وَ
اتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ وَ
لٰكِنْ كَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ۔
ترجمۂ کنزالایمان:"اور اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور ڈرتے تو ضرور ہم
ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے، مگر انہوں نے جھٹلایا تو ہم نے انہیں ان کے کئے پر گرفتار کیا۔"(پ9،اعراف:96)