سید عبدالقدیرعطاری (درجۂ سادسہ جامعۃ المدینہ گلزار حبیب سبزہ زار
لاہور، پاکستان)
اسلامی
تعلیمات کی رو سے انسانی جان کو ہمیشہ عزت و حرمت حاصل رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ کسی
انسان کا ناحق قتل کرنا کفر کے بعد کبیرہ گناہوں میں سے سب سے بڑا گناہ ہے، اس پر
قرآن وحدیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے’’ قتل ناحق کی
سزا جہنم ہے‘‘، دوسری جگہ فرمان ربانی ہے ’’اور جو شخص کسی مسلمان کو جان بوجھ کر
قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اللہ اس پر غضب نازل
کرے گا اور لعنت بھیجے گا اور اللہ نے اس کیلئے بڑا عذاب تیار کر رکھا
ہے‘‘(سورۃالنسا ء :93)۔
قتل
کن صورتوں میں جائز: شریعت نے صرف تین صورتوں میں قتل کو جائز قرار دیا
ہے، (1) قتل کے بدلے قتل یعنیٰ قصاص، (2) شادی شدہ مرد یا عورت اگر زنا کرے تو حد
قائم کرنے کی صورت میں انہیں رجم کر کے مار ڈالنا، (3) ارتداد کے جرم میں قتل
کرنا۔
حضرت عبداللہ
بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو مسلمان
شخص یہ گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں اللہ کا رسول
ہوں تو اس کا خون (یعنی قتل کرنا) فقط تین صورتوں کی وجہ سے حلال ہے، جان کے بدلے
جان (قاتل کو قتل کرنا)، شادی شدہ زانی اور دین سے مرتد ہو کر جماعت چھوڑنے
والا‘‘(صحیح البخاری 6878)۔ ان تینوں صورتوں کے علاوہ جو بھی قتل ہوگا وہ قتل ناحق
اور فساد فی الارض کے ضمن میں آئے گا۔
روز
قیامت سب سے پہلے خون کا حساب: حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: روز قیامت لوگوں کے درمیان سب سے پہلے
خونوں کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا (صحیح البخاری: 6533، صحیح مسلم: 1678)
انسانی
خون کی حرمت: نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے
مسلمان محفوظ رہیں اور مہاجر وہی ہے جو گناہوں اور برائیوں کو چھوڑ دے‘‘(صحیح
البخاری : 6484)۔
ایک مومن کی
حرمت کعبہ کی حرمت سے بھی زیادہ ہے، حضرت عبد اللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں
نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور یہ فرماتے
سنا : اے کعبہ تو کتنا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پیاری ہے، تو کتنا عظیم
المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد صلی
اللہ علیہ وسلم کی جان ہے، مومن کے جان و مال کی حرمت اللہ کے نزدیک تیری حرمت سے
زیادہ ہے‘‘ (صحیح الترغیب 2339)مقتول قاتل کوعرش تک لے جائے گا
حضرت عبد اللہ
بن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:روزِ قیامت مقتول
قاتل کو لے کر آئے گا اس(قاتل)کی پیشانی اور اس کا سر مقتول کے ہاتھ میں ہوگا اور
اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہوگا، وہ کہے گا : اے میرے رب! اس نے مجھے کیوں قتل
کیا؟ حتیٰ کہ وہ اسے عرش کے قریب لے جائے گا(صحیح الترمذی 3029)۔
قاتل
کا کوئی عمل قبول نہیں: حضرت عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو کسی مومن کو ناحق قتل کرے، پھر اس پر خوش بھی ہو
تو اللہ اس کا کوئی عمل قبول نہ فرمائے گا نہ نفل اور نہ فرض‘‘ (سنن ابی داؤد:
4270)
مومن
کو قتل کرنیوالے کی بخشش نہیں: حضرت ابودرداؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :امید ہے کہ اللہ ہر گناہ معاف فرما دے سوائے اس شخص
کے جو حالت شرک میں فوت ہوگیا ہو یا جس نے عمدا ًکسی مومن کو قتل کیا ہو‘‘(سنن ابی
دائود)۔
اسلحے سے
اشارہ کرنے سے ممانعت
فولادی اور
آتشیں اسلحہ سے لوگوں کو قتل کرنا تو بہت بڑا اِقدام ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم نے اہلِ اِسلام کو اپنے مسلمان بھائی کی طرف اسلحہ سے محض اشارہ کرنے
والے کو بھی ملعون و مردود قرار دیا ہے۔
حضرت ابوہریرہ
ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص
اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے، تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ شاید
شیطان اس کے ہاتھ کو ڈگمگا دے اور وہ(قتل ناحق کے نتیجے میں) جہنم کے گڑھے میں جا
گرے (صحیح البخاری: 7072)۔
حضرت ابوہریرہ
ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص نیزے سے اپنے
بھائی کی طرف اشارہ کرے، فرشتے اس پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں، حتی کہ وہ اسے رکھ دے
(صحیح مسلم 2616)۔
اسلحے
کی نمائش کی ممانعت: رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی دوسرے پر
اسلحہ تاننے سے ہی نہیں بلکہ عمومی حالات میں اسلحہ کی نمائش کو بھی ممنوع قرار
دیا، حضرت جابرؓ سے روایت ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ننگی تلوار لینے
دینے سے منع فرمایا(صحیح الترمذی: 2163)
جب اسلحہ کی
نمائش، دکھاوا اور دوسروں کی طرف اس سے اشارہ کرنا سخت منع ہے تو اس کے بل بوتے پر
ایک مسلم ریاست کے نظم اور اتھارٹی کو چیلنج کرتے ہوئے آتشیں گولہ و بارود سے
مخلوقِ خدا کے جان و مال کو تلف کرنا کتنا بڑا گناہ اور ظلم ہوگا۔حجۃ الوداع کا
پیغام
حضرت جریر بن
عبد اللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع
پر فرمایا: میرے بعد ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ کر کافر نہ بن جانا (صحیح البخاری:
7080)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میدانِ عرفات میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: بلا شبہ
تمہارے خون اور تمہارے مال آپس میں ایک دوسرے پر حرام ہیں، جیسا کہ آج کے دن کی بے
حرمتی تمہارے اس مہینے میں، تمہارے اس شہر میں حرام ہے (صحیح البخاری : 1739)۔
مومن
کا قتل پوری دنیا کی تباہی سے بھی ہولناک:حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت
ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں
میری جان ہے! البتہ مومن کا (ناحق) قتل اللہ تعالیٰ کے ہاں ساری دنیا کی تباہی سے
زیادہ ہولناک ہے (صحیح النسائی: 3997)۔
ایک
مومن کے مقابلے میں ساری دنیا معمولی چیز: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا،’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک پوری دنیا کا زوال و تباہی ایک مسلمان کے قتل سے کم
تر ہے، یعنی ساری دنیا تباہ ہو جائے، یہ اللہ کے ہاں چھوٹا عمل ہے بہ نسبت اس کے
کہ ایک مسلمان کو قتل کیا جائے‘‘(صحیح الترمذی : 1395)
ناحق
خون میں شامل سب لوگ جہنم میں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
نے فرمایا: ’’اگر تمام آسمان اور زمین والے ایک مومن کے خون میں شریک ہو جائیں تو
اللہ تعالیٰ ان سب کو جہنم میں ڈال دے گا‘‘(صحیح الترمذی : 139)
قارئین کرام
!قرآن وحدیث کی روشنی سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی شخص کو قتل کرنا شرک کے بعد سب سے
بڑا گناہ ہے اور قاتل کی سزا جہنم ہے، جس میں وہ ایک طویل عرصہ تک رہے گا، اللہ
تعالیٰ نے قاتل کیلئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے لہٰذا ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ قتل
جیسے کبیرہ گناہ سے ہمیشہ بچے۔
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔