محمد ذیشان چشتی نظامی (درجۂ خامسہ جامعۃ
المدینہ گلزار حبیب سبزہ زار لاہور، پاکستان)
قرآن و حدیث
میں قتل ناحق کی مذمت بار بار آئی ھے۔کسی کام کے منع کرنے کا بار بار ذکر ہونا اس
چیز کی اہمیت کو اجاگر کرتا ھے کہ اس چیز کو نا کرنے کی کتنی زیادہ تاکید ھے جیسے
کہ ماقبل میں قتل ناحق کی مذمت کا ذکر ہوا۔
یہ بات اظھر من الشمس ھے کہ قرآن و
حدیث میں قتل نا حق کی کتنی زیادہ مذمت آئی ھے اور کتنی تاکید کیساتھ منع کیا گیا
ھے کہ قتل نا حق سے بچتے رہنا چاہیے لیکن جو ہمارا آج کا عنوان ھے وہ ھے قتل نا حق
کی مذمت احادیث مبارکہ کی روشنی میں ہر مسلمان کو چاہیے کہ اس دنیا میں رہتے ہوئے
اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے احکامات کے تابع کردے چاہے وہ احکامات قرآن کریم میں
بیان ہوئے ہیں یا وہ احکامات احادیث مبارکہ میں بیان ہوئے ۔
بحیثیت مسلمان
ہم سب کو چاہیے کہ ہم مسلمانوں بھائیوں کے تمام حقوق کا خیال رکھیں بالخصوص مسلمان
کی جان کے معاملے میں ہمیں محتاط رہنا چاہیے کہ کہیں خدانخواستہ انجانے میں ہم کسی
بھی مسلمان کے خون بہانے میں ملوث نا ہوجایے ہم اس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے
ھیں
اس دنیا میں
سب سے پہلے قتل کی ابتداء انسان نے کی کہ جب قابیل نے حضرت ہابیل علیہ الصلوۃ
والسلام کو اپنے والد محترم حضرت آدم علیہ السلام کے حکم کی نافرمانی کرتے ہوئے
قتل کیا اور یہ بدبختی قابیل کے کھاتے میں آئی کہ حدیث مبارکہ میں یہ بات بیان کی
گئی ھے کہ جس کا مفہوم یہ ھے کہ قیامت تک جو شخص کسی دوسرے شخص کو نا حق قتل کرے
گا تو اس کے قتل کا گناہ بھی قابیل کے نامعہ اعمال میں لکھا جائے گا کہ اس نے سب
سے پہلے انسان کے قتل کی ابتداء کی ۔
حدیث پاک ھے
کہ آقا کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالیشان بزبان حضرت ابو ھریرۃ
رضی اللہ تعالیٰ عنہ "جس شخص نے کسی مسلمان کے قتل میں آدھے کلمے سے بھی
اعانت کی وہ قیامت کے دن اللہ کے سامنے اس حال میں آئے گا کہ اس کی پیشانی میں
لکھا ہوگا کہ یہ شخص اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ھے ''( بحوالہ سنن ابن ماجہ جلد
نمبر 2 ص 874 باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلما )
دیکھا آپ نے
حدیث پاک میں!حدیث پاک میں قتل نا حق کی مذمت کس طرح بیان کی گئی کہ آدھے کلمے سے
بھی جس نے قتل کے معاملے میں مدد کی اللہ تعالیٰ اس کی پیشانی میں لکھے گا کہ یہ
شخص اللہ کی رحمت سے محروم ھے
ایک تو اسے
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دھتکار دیا جائے گا دوسرا اس کو سب کے سامنے سخت رسوائی
کا سامنا کرنا پڑے گا اور غضب الٰہی کی یہ صورت رسوائی ہی رسوائی ھوگی ہم۔اللہ
تعالیٰ کی اس کے غصب سے پناہ مانگتے ہیں۔
کسی مسلمان کو
ناحق قتل کرنے والا بروز قیامت بڑے خسارے کا شکار ہوگا فرمان مصطفے صلی اللہ تعالی
علیہ وآلہ وسلم بزبان سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ "زمین و آسمان والے
کسی مسلمان کے قتل ہونے پر جمع ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں
ڈال دے گا"(بحوالہ معجم الصغیر جلد اول ص 205)
مسلمانوں کے
آپس میں قتل ناحق کرنے کے بارے میں وعیدیں ہمیں قرآن و حدیث میں کثیر مقامات پر
ملتی ھیں کہ مزکورہ حدیث میں یہ بات گزری ھے کہ اگر سارے بندے بھی ایک مسلمان کے
قتل کرنے پر جمع ہو جائیں تو اس کے عوض اللہ تعالیٰ تمام بندوں کو جہنم میں داخل
فرمادے تو بھی اللہ تعالی کو کوئی پرواہ نھیں
اس سے ہمیں
قتل ناحق کے مذموم ہونے کے بارے میں بات معلوم ہوئی کہ قتل نا حق اللہ تعالیٰ
انتہائی ناپسند ھے۔ سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ھے کہ رسول کریم
صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کا فرمان عالیشان ھے ''کہ جب دو مسلمان اپنی
تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے'' راوی فرماتے ھیں کہ
میں نے عرض کی ” مقتول جہنم میں کیوں جائے گا فرمایا اس لیے کہ وہ اپنے ساتھی کو
قتل کرنے پر مصر تھا (بحوالہ بخاری شریف کتاب الایمان جلد اول ص نمبر 23 حدیث 31)
پیارے آقا
کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے کئی فرمان مروی ھیں
چنانچہ آپ صلی
اللہ تعالی علیہ والہ و سلم کا فرمان عالیشان ھے کہ جس نے غیر مسلم شہری یعنی
معاھد کو قتل کیا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھے گا حالانکہ جنت کی خوشبو
چالیس برس کی مسافت تک محسوس ہوتی ھے بحوالہ۔بخاری شریف کتاب الجزیہ
ایک اور جگہ
فرمان مصطفے صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم ھے کہ ''جس کسی معاہد کو قتل نا حق کیا
تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام فرمادے گا''( بحوالہ سنن نسائی کتاب القسامۃ حدیث
نمبر 474)
دین اسلام کا
یہ حسن ھے کہ اس نے مسلمانوں اور غیر مسلم کو عدل و انصاف کیساتھ حقوق مہیا کیے
ہیں اور عملی طور پر انھیں اس پر عمل کرکے بھی سمجھادیا ھے
اللہ تعالیٰ
ہمیں قتل ناحق سے بچائے آمین ثم آمین یا رب العالمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔