اسلام کی تعلیمات میں سے ایک یہ ہے کہ کسی انسان کو ناحق تکلیف نہ دی جائے، اور اگر بات ایک مسلمان کو تکلیف دینے کی ہو تو اللہ پاک کے آخری نبی حضرت محمدِ عَرَبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایااَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِّسَانِهٖ وَيَدِہٖ. ترجمہ : مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان کو تکلیف نہ پہنچے۔( صحیح بخاری : 1 / 15 ، حدیث : 10)

اس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ اسلام کیسا خوبصورت دین ہے کہ جو مسلمانوں اور انسانوں کو تکلیف پہنچانے سے منع فرماتا ہے بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مومنوں کی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ محبت و مودت اور باہمی ہمدردی کی مثال جسم کی طرح ہے کہ جب اس کا کوئی عضو تکلیف میں ہوتا ہے تو سارا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے اس طرح کہ نیند اڑ جاتی ہے اور پورا جسم بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے“۔ (صحیح مسلم: ص1071،حدیث:6586)

یہ تو ایک عام سی ناحق تکلیف کی بات ہے جس پر اسلام کی ایسی خوبصورت تعلیمات موجود ہیں، وہیں اگر کسی مسلمان کو نا حق قتل کرنے کی بات ہو تو یہ شدید سخت گناہ ہے قرآن کی سورت النساء آیت نمبر 24 میں یوں فرمایا گیا کہ : ترجمہ کنزالایمان:اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیے تیار رکھا بڑا عذاب۔

مزید آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ اس بارے میں اسلام کی کیسی تعلیمات ہوں گی۔ کچھ احادیث ملاحظہ فرمائیے:

(1) حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے ، تاجدارِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو (ناحق) قتل کرنا ہے۔ (صحیح بخاری : 358/4، الحدیث: 6871)

(2)... حضرت ابو بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہو جائیں تو اللہ تعالی سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔(معجم صغیر: ص 205 ، الجزء الاول)

(3)... حضرت ابو بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے ، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض کی : مقتول جہنم میں کیوں جائے گا ؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پر مصر تھا۔ (صحیح بخاری: ٢٣/١، الحديث : 31)

(4) حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ” یہ اللہ عزوجل کی رحمت سے مایوس ہے۔“ (سنن ابن ماجہ، ٢٦٢/٣، الحدیث: ٢٦٢٠)

(5) محسنِ انسا نیت صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی احادیث میں قتلِ انسانی کی مذمت بیان فرمائی ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: سب سے بڑے گناہ اللہ تعالٰی کے ساتھ شرک کرنا، کسی جان کو قتل کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی گواہی دینا ہیں۔ (صحيح بخاری: ج 4،ص357، حدیث:6871)

ہمیں اپنے ساتھ ایک وعدہ کرنا ہوگا کہ اپنی زندگیوں کو اسلامی تعلیمات کے مطابق گزاریں گے اور کسی بے گناہ کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ جس دن معاشرے میں یہ مثبت سوچ پختہ ہو جائے گی، اس دن ایک جان بالکل محفوظ ہو جائے گی، اور موت کی جگہ زندگی اور غم کی جگہ خوشیوں کے پھول کھلیں گے۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔