فرحان علی(درجہ سادسہ جامعۃُ
المدینہ فیضان حسن وجمال مصطفیٰ کورنگی کراچی، پاکستان)
پڑوسی سے مراد ہر وہ شخص ہے جس کا گھر آپ کے گھر سے متصل
ہو، یا جس کا گھر آپ کے گھر سے قریب ہو، اگرچہ متصل نہ ہو، یا جس کا گھر آپ کے گھر
کے بالمقابل ہے ، در میان صرف راستہ حائل ہے ، یادونوں کی گلی اور راستہ ایک ہو،
یا دونوں کی ملاقات مسجد میں ہوتی ہو وغیرہ وغیرہ یہ سب پڑوسی ہی ہیں۔ اللہ پاک
قراٰنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ
بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ
الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ-وَ مَا مَلَكَتْ
اَیْمَانُكُمْؕ-﴾ترجمۂ کنزالایمان: اور ماں باپ سے بھلائی کرواور رشتہ داروں اور یتیموں اور
محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور
اپنی باندی غلام سے ۔ (پ5، النسآء:36)
صاحب ابنِ کثیر اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں کہ اپنے
پڑوسیوں کا خیال رکھو ان کے ساتھ اچھا برتاؤ اور نیک سلوک رکھو خواہ وہ قرابت دار
ہوں یا نہ ہوں ، اسی طرح خواہ مسلمان ہوں یہودی ہوں یا نصرانی ۔ ( تفسیر ابن کثیر
، النساء ، تحت الاٰیۃ 36 )
حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ حضورِ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ پاک پر اور آخرت کے دن پر ایمان
رکھتا ہے اُس کو چاہیے کہ مہمان کا اکرام کرے اور اپنے پڑوسی کو نہ ستائے اور زبان
سے کوئی بات نکالے تو بھلائی کی نکالے ورنہ چپ رہے ۔ ( صحیح بخاری: 6018 )
گویا پڑوسی کے حق کا سب سے ادنیٰ درجہ یہ بتایا جاتا ہے کہ
اس کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ پہنچائے اور یہ اُس کا بہت ہی ادنیٰ درجہ کا حق ہے
ورنہ دوسری روایات میں پڑوسی اور ہمسایہ کے حق کے متعلق بہت زیادہ تاکیدیں وارد
ہوئی ہیں۔چنانچہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: پڑوسی کے
گیارہ حق ہیں: (۱)جب اسے تمہاری
مدد کی ضرورت ہو اس کی مددکرو(۲)اگر معمولی قرض مانگے دے دو(۳)اگر وہ غریب ہو تو اس کا خیال رکھو(۴)وہ بیمار ہو تو مزاج پرسی بلکہ ضرورت ہو تیمارداری کرو(۵)مرجائے تو جنازہ
کے ساتھ جاؤ(۶)اس کی خوشی میں
خوشی کے ساتھ شرکت کرو(۷)اس کے غم و مصیبت میں ہمدردی کے ساتھ شریک رہو(۸)اپنا مکان اتنا اونچا نہ بناؤ کہ اس کی ہوا روک دو مگر اس
کی اجازت سے(۹)گھر میں پھل فروٹ
آئے تو اسے ہدیۃً بھیجتے رہو نہ بھیج سکو تو خفیہ رکھو اس پر ظاہر نہ ہونے دو،
تمہارے بچے اس کے بچوں کے سامنے نہ کھائیں(۱۰)اپنے گھر کے دھوئیں سے اسے تکلیف نہ دو(۱۱)اپنے گھر کی چھت
پر ایسے نہ چڑھو کہ اس کی بے پردگی ہو۔قسم اس کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے پڑوسی
کے حقوق وہ ہی ادا کرسکتا ہے جس پر اللہ رحم فرمائے۔(مراٰۃ المناجیح ، ج 6 ، باب
الضیافۃ، الحديث: 4058)
کہا جاتا ہے ہمسایا اور ماں جایا برابر ہونے چاہئیں۔افسوس!
مسلمان یہ باتیں بھول گئے۔آج ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ پڑوسیوں کے ساتھ اچھا
سلوک نہیں کرتے اور ایک دوسرے کے ساتھ اجنبی جیسا برتاؤ کرتے ہیں جو کسی صورت اچھی
بات نہیں۔ اللہ کریم ہمیں پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم