شاہ زیب عطاری(درجۂ ثالثہ
جامعۃُ المدینہ فیضان امام غزالی فیصل آباد، پاکستان)
ہمسایہ
اور پڑوسی قریب کے رہنے والے لوگوں کو کہتے ہیں عربی میں اسے جار کہتے ہیں اور
جیران اس کی جمع ہے ۔ ہمسایہ کی حدود ایک حدیث مبارکہ میں چالیس گھروں تک بتائی
گئی ہے اور زیادہ حق قریب ترین پڑوسی کا بتایا گیا ہے۔ چنانچہ اللہ پاک کا فرمان
عالیشان ہے : ﴿وَ
بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ
وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ
ابْنِ السَّبِیْلِۙ-وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ-﴾ترجمۂ کنزالایمان: اور ماں باپ سے
بھلائی کرواور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے
ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے ۔ (پ5، النسآء:36)
پڑوسیوں سے حسن سلوک:حضرت عمررضی اللہ عنہ اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتے ہیں نبی کریم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ہے: جبرائیل مجھے پڑوسی (کے حقوق
کا خیال رکھنے) کے بارے میں اتنی تلقین کرتے رہے ، میں نے یہ گمان کیا کہ یہ اسے
وارث قرار دے گے۔ (بخاری)
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:نبی کریم صلی علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا:اللہ کے نزدیک سب سے بہترین ساتھی وہ ہے جو اپنے ساتھی کے
لئے بہتر ہو اور اللہ کے نزدیک سب سے بہترین پڑوسی وہ ہے جو اپنے پڑوسی کے حق میں
بہتر ہو۔(ترمذی، 1945)
تحائف کا عطیہ: پڑوسیوں میں محبت کے جذبات پروان چڑھانے کے لیے ہدیوں اور تحائف دینے کا حکم
دیا گیا ہے۔ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں نبی کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اے ابوذر! جب تم شوربا پکاؤ تو اس میں پانی
زیادہ ڈال دیا کرو اور اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھا کرو۔ ( مسلم ، 4 حدیث: 2025)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اے مؤمن خواتین تم میں سے کوئی ایک بھی اپنی پڑوسن سے
آنے والی چیز کو حقیر نہ سمجھو خواہ وہ بکری کا ایک پایہ ہو۔ ( بخاری)
اذیت کی ممانعت : پڑوسیوں کو اذیت دینے کی ممانعت کی گئی ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ
عنہ بیان کرتے ہیں نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ہے:
اللہ کی قسم وہ شخص مؤمن نہیں ہو سکتا! اللہ کی قسم وہ شخص مؤمن نہیں ہوسکتا عرض کی گئی کون
یارسول اللہ صلی علیہ وسلم آپ نے فرمایا وہ شخص جس کا پڑوسی اس کے شر سے محفوظ نہ
ہو۔ ( بخاری،1،ص 137، حدیث:1371) مسلم کی ایک حدیث میں یہ الفاظ ہیں: وہ شخص جنت
میں داخل نہیں ہوگا جس کا پڑوسی اس کے شرسے محفوظ نہ ہو۔ ( مسلم) حضرت ابوہریرہ
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا : جو شخص اللہ پاک اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو اذیت
نہ پہنچائے جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ مہمان نوازی کرے جو
شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔ (
بخاری)پڑوسیوں کے چند حقوق ملاحظہ کیجئے :
جب وہ آپ سے مدد مانگیں ان کی مدد کریں: جب وہ محتاج ہو ان
کی حاجت پوری کرو، جب وہ بیمار ہو اس کی عیادت کرو ، جب اسے خبر پہنچے اسے
مبارکباد دو، جب اس پر کوئی مصیبت آپڑے اس کی عیادت کرو،جب قرض مانگے اسے قرض دو
،جب وہ مر جائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جاؤ۔
انسان کو خوشی اور غمی دونوں سے واسطہ پڑتا ہےاس لئے ایک
ہمسائے کو چاہیے کہ اپنے پڑوسی کی خوشی اور غمی میں شریک ہو، اس کا ہاتھ بٹائے اور
اگر اس سلسلہ میں کسی مالی امداد کی ضرورت پیش آئے تو اسے بھی پورا کرے اور اس سے
بغض و کینہ اور حسد تکبر نہ کرے۔حدیث پاک میں ہے: جب مؤمن اپنے بھائی کی ایک حاجت
پوری کرتا ہے تو اللہ پاک اس بندے کی بہتر حاجات پوری کرتا ہےاور ہمسایہ کو کوئی
غم کا واقعہ پیش آجائے تو اسے تسلی دلائی جائے، کھانے وغیرہ کا انتظام کیا جائے
اور مالی امداد کا اگر مستحق ہو تو ان کی پوری طرح مدد کی جائے۔ اللہ پاک عمل کی
توفیق عطا فرمائے ۔ امین