اولاد کو سدھارنے کے طریقے از بنت محمد سلیم، جامعۃ
المدینہ معراج کے سیالکوٹ
تربیت کا درست وقت: ویسے تو تربیت کا تعلق کسی خاص وقت
سےنہیں ہوتا، لیکن خاص طور پر بچے کی تربیت بہت اہم ہوتی ہے کیونکہ بچے کا ذہن
کورے کاغذ کی طرح ہوتا ہے اس پر جو بھی لکھا جائے وہ پتھر پرلکیر کا کام دیتا ہے،
یعنی ابتداءً ہی جو بات اس کے دل و دماغ میں ڈال دی جائے وہ مضبوط ومستحکم ہوجاتی
ہے۔لہٰذا والدین کوچاہیے کہ وہ بچپن ہی سے اولاد کی تربیت پر بھر پور توجہ دیں،اسے
بچہ سمجھ کر یا بول کر (Ignore) یعنی نظرانداز نہ کریں۔
بچوں کی تربیت کا انداز کیسا ہو؟ ہمارے پیارے
آقاﷺ ہر کام میں ہمارے لیے مشعل راہ ہے اس لیے بچوں کی تربیت کے معاملے میں حضور
پاک ﷺ کا انداز تربیت پیش نظر ہونا چاہیے۔
بچوں
کو اپنے ساتھ بٹھا کرکھلائیےاور مثبت انداز سے سمجھائیے: رسول پاک ﷺ بچوں کو اپنے
ساتھ بٹھا کر کھانا کھلاتے جس سے بچوں کی دلجوئی کے ساتھ ساتھ تربیت کا سامان بھی
ہوتاتھا۔چنانچہ ایک مرتبہ حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ رسول پاک ﷺ کے ساتھ
بیٹھ کر کھانا کھا رہے تھے کہ آپ رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پلیٹ میں کبھی ادھر
پڑتا،کبھی ادھر۔رسول پاک ﷺ نے اس انداز سے سمجھایا کہ انہیں محسوس ہی نہیں ہوا کہ
غلطی پر ٹوکا جارہا ہے یا آداب سکھائے جارہے ہیں،چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا: اے بچے! جب
کھانا کھاؤ تو اللہ کا نام لو، اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے سامنے سے کھاؤ۔ (بخاری،
3/521، حدیث: 5376)
تربیت
کرنے والوں کے لیے اس فرمان میں سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے کہ ابتداءً ٹوکنے کے
بجائے کچھ آداب بیان کرنے کی وجہ سے انداز بھی مثبت رہا اور مقصود بھی حاصل ہوگیا
یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میرے
کھانے کا انداز ویسا ہی رہا جیسا آپ ﷺ نے بیان فرمایاتھا۔
بوقت
ضرورت ڈانٹ ڈپٹ بھی کی جائے: رسول پاک ﷺ کی شفقت کو دیکھا جائے تو حضرت انس رضی
اللہ عنہ نے دس سال رسول پاک ﷺ کی خدمت میں گزارے لیکن کبھی بھی انہیں ڈانٹا نہیں
گیاجس کی گواہی حضرت انس رضی اللہ عنہ خود دیتے ہیں۔ (مسلم، ص 972، حدیث 2309)
اور
اگر کہیں تربیت کے معاملے میں پیار ومحبت سے سمجھانا مؤثر نہ ہورہا ہو اور معاملہ
فرائض کا ہو تو وہاں بطور تنبیہ ڈانٹ ڈپٹ کا حکم بھی ارشاد فرمایا ہے،چنانچہ
فرمایا: اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو جب کہ وہ سات سال کے ہوجائیں اور جب دس سال
کے ہوجائیں تو نماز نہ پڑھنے کی وجہ سے انہیں مارو۔ (ابو داود، 1/208، حدیث: 495)