نماز کی تعریف:نماز کی نیت سےنماز کی شرائط کے ساتھ نماز کے ارکان کو ایسے طریقے سے ادا کرنا جیسا کہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ادا کی تھی نماز کہلاتی ہے۔(شرح ھدایہ،2/28)ایمان وتصحیحِ عقائد مطابق مذہبِ اہلِ سنت و جماعت کے تمام فرائض میں نماز نہایت اہم و اعظم ہے۔قرآنِ مجید و احادیثِ نبی ِکریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اس کی اہمیت سے مالا مال ہیں۔جابجا اس کی تاکید آئی ہے۔اللہ پاک فرماتا ہے:اقیموا الصلوۃ واتو الزکوۃ وارکعوا مع الرکعین0 (پ1،البقرۃ:43)اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ فرمانِ آخری نبی:منیۃ المصلی میں ہے کہ ارشاد فرمایا:ہر شےکی علامت ہوتی ہے اور ایمان کی علامت نماز ہے۔(بہار شریعت،ص439،حدیث:24)نماز وہ عظیم الشان عبادت اور نعمتِ عظمیٰ ہے جسے اللہ پاک نے امتِ محمدیہ کو عطا فرمائی،ہم سے پہلے کسی امت کو نہ ملی۔نماز ہمارے لیے تحفۂ عظیم اور ہمارے پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔

پیارے نبی کی آنکھ کی ٹھنڈک نماز ہے جنت میں لے چلے گی جو بے شک نماز ہے

ہم پر اللہ پاک کا احسانِ عظیم ہے کہ پانچ نمازیں پڑھنے پر پچاس نمازوں کا ثواب ہے۔اللہ پاک ہمیں بھی پانچوں نمازیں پڑھنے کی سعادت مرحمت فرمائے۔ہر نماز کی اپنی الگ فضیلت ہے۔نمازِ مغرب کی فضیلتیں بھی بے شمار ہیں۔نمازِ مغرب سب سے پہلے حضرت داؤد علیہ السلام نے پڑھی اپنی توبہ قبول ہونے کے شکریہ میں کیونکہ ان کی توبہ بوقتِ مغرب قبول ہوئی تھی،آپ نےچار رکعت کی نیت کی تھی مگر درمیان میں تین رکعت پر ہی سلام پھیر دیا تو نمازِ مغرب کی تین رکعتیں ہوگئیں۔نمازِ مغرب کے فضائل: نمازِ مغرب کے فضائل پر مشتمل فرامینِ آخری نبی درج ذیل ہیں:امام احمد و ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہما حضرت ابو ایوب وعقبہ بن عامر رضی اللہ عنہما سے راوی ہیں،رسولِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:میری امت ہمیشہ فطرت پر رہے گی جب تک مغرب میں اتنی تاخیر نہ کریں کہ ستارے گتھ جائیں۔(ابوداود،1/183،حدیث:418) 2۔خادمِ نبی حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سرکارِ مدینہ،راحتِ قلب و سینہ ،صاحبِ معطر پسینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عالی شان ہے:جس نے مغرب کی نماز باجماعت ادا کی اس کے لیے مقبول حج و عمرہ کا ثواب لکھا جائے گا اور وہ ایسا ہے گویا( یعنی جیسے) اس نے شبِ قدر میں قیام کیا۔(جمع الجوامع،7/195،حدیث:22311)3۔رزین نے مکحول سے مرسلاً روایت کی کہ فرماتے ہیں:جو شخص بعدِ مغرب کلام کرنے سے پہلے دو رکعتیں پڑھے اس کی نماز علیین میں اٹھائی جاتی ہے اور ایک روایت میں چار رکعت ہیں نیز انہی کی روایت حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے ہے اس میں اتنی بات زیادہ ہے کہ فرماتے تھے:مغرب کے بعد کی دونوں رکعتیں جلد پڑھو کہ وہ فرض کے ساتھ پیش ہوتی ہیں۔(مشکاۃ المصابیح،1/345،حدیث:1184-1185) 4۔ دوفرامینِ مصطفے:(1)جو شخص مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھے اور ان کے درمیان میں کوئی بُری بات نہ کہے تو بارہ برس کی عبادت کے برابر کی جائیں گی۔(2)جو مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھے اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے اگرچہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں۔(معجم اوسط،5/255،حدیث:7245) وضاحت:مغرب کے بعد کی چھ رکعت نمازِ اوابین کہلاتی ہیں۔بہارِ شریعت جلد اول صفحہ 666 پر ہے:بعدِ مغرب چھ رکعتیں مستحب ہیں ان کو صلاۃ الاوابین کہتے ہیں خواہ ایک سلام سے پڑھے،دو سلام سے یا تین سےاور تین سلام سے یعنی ہر دو رکعت پر سلام پھیرنا افضل ہے۔4۔حضرت عمر بن ابو خلیفہ رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں:حضرت عطا خراسانی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ نمازِ مغرب ادا کی،نماز کے بعد ہم واپس ہونے لگے تو آپ نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا:مغرب و عشا اس درمیانی وقت سے لوگ غافل ہیں یہ نمازِ اوابین( یعنی توبہ کرنے والوں کی نماز) کا وقت ہے۔جس نے اس دوران نماز میں قرآنِ کریم کی تلاوت کی گویا وہ جنت کی کیاری میں ہے۔(اللہ والوں کی باتیں،5/259 ) 5۔ترمذی کی روایت ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ہے: جو مغرب کے بعد بیس رکعتیں پڑھے اللہ پاک اس کے لیے جنت میں ایک مکان بنائے گا۔(ترمذی،1/439،حدیث:435)نماز بہت پیاری عبادت ہے۔اس کے شروع ہوتے ہی جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں۔اللہ پاک ہمیں بھی پابندیِ وقت کے ساتھ نماز ادا کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔

پڑھتی رہو نماز جنت میں جاؤ گی ہوگا وہ تم پہ فضل کے دیکھے ہی جاؤ گی