محمد طلحٰہ خان عطّاری(درجہ رابعہ،جامعۃُ المدینہ فیضان خلفائے راشدین ،راولپنڈی،پاکستان)
جمعہ فرضِ عین ہے
اور ا س کی فرضیت ظہر سے زیادہ مُؤکَّد ہے اور اس کا منکر کافر ہے۔( بہار
شریعت، حصہ چہارم، جمعہ کا بیان، مسائل
فقہیہ، 1 / 762) اللہ پاک قراٰن مجید میں جمعہ کی نماز کی اہمیت کے متعلق ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَةِ
فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ وَ ذَرُوا الْبَیْعَؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ
اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۹)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو جب نماز کی اذان ہو جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و
فروخت چھوڑ دو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔(پ28،الجمعۃ:09) اس آیتِ مبارکہ
سے جمعہ کی نماز کی اہمیت معلوم ہوتی ہے
کہ جب جمعہ کی پہلی اذان ہو جائے تو اپنی
تمام مشغولیات کو چھوڑ کر نمازِ جمعہ کی
تیاری شروع کردو اور نماز گاہ کی طرف پہنچو۔
حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا سب سے پہلی
نمازِ جمعہ ادا کرنے کے متعلق علّامہ سید
محمد نعیم الدین مرادآبادی رحمۃُ اللہِ علیہ
فرماتے ہیں کہ جب حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہجرت کرکے
مدینہ طیبہ تشریف لائے تو 12 ربیع الاوّل ،پیر کے دن، چاشت کے وقت
قباء کے مقام پر ٹھہرے، پیر سے لے کر جمعرات تک یہاں قیام فرمایا
اور مسجد کی بنیاد رکھی ، جمعہ کے دن
مدینہ طیبہ جانے کا عزم فرمایا، بنی سالم بن عوف کی وادی کے درمیان جمعہ کا وقت آیا، اس جگہ کو لوگوں نے
مسجد بنایا اور سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
وہاں جمعہ پڑھایا اور خطبہ
فرمایا۔یہ پہلا جمعہ ہے جو نبی
کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے اَصحاب رضی اللہُ
عنہمْ کے ساتھ پڑھا۔( خازن، الجمعۃ، تحت الآیۃ: 9، 4 / 266)
نمازِ جمعہ کی
اہمیت و فضیلت پر کثیر احادیثِ مبارکہ موجود ہیں جن میں سے 5 مندرجہ ذیل ہیں:(1) رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فر مایا :بلا شبہ تمہارے لئے ہر جمعہ کے دن میں ایک حج اور ایک عمرہ موجود ہے، لہٰذا
جمعہ کی نماز کے لئے جلدی نکلنا حج ہے اور
جمعہ کی نماز کے بعد عصر کی نماز کے لئے
انتظار کرنا عمرہ ہے۔ (السنن الكبرى للبیہقی، 3/342،حديث: 5950)
(2)حضرت ابو سعید رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے،
رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :پانچ
چیزیں جو ایک دن میں کرے گا ،اللہ پاک اس کو جنّتی لکھ دے
گا۔ (1) جو مریض کو پوچھنے جائے ،(2) جنازے میں حاضر ہو
، (3) روزہ رکھے ،(4) جمعہ کو جائے ،(5)اور غلام آزاد کرے۔( الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان، کتاب
الصلاۃ، باب صلاۃ الجمعۃ، 3 / 191، الجزء الرابع، حدیث:2760)
(3)حضرتِ عبد اللہ
بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :
جمعہ کی نماز مساکین کا حج ہے اور دوسری روایت میں ہے کہ جمعہ کی نماز غریبوں کا حج ہے۔(کنز العمال ، 7/290،حدیث:
21028،21027 ،دارالکتب العلميہ بيروت)
(4) حضرتِ سیِّدُناابواُمامہ رضی اللہُ
عنہ
سے مَروی ہے کہ سلطانِ دوجہا ن شَہَنشاہِ کون ومکان، رَحمتِ عالمیان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ
عالیشان ہے: جس نے جمعہ کی نَماز پڑھی
،اس دن کا روزہ رکھا ، کسی مریض کی عیادت
کی ،کسی جنازہ میں حاضِر ہوا اور کسی نِکاح میں شرکت کی توجنّت اس کے لیے واجِب
ہوگئی ۔( المعجم الكبير ، 8/197، حدیث: 7484،داراحياء التراث
بيروت)
(5)جس نے اچھی طرح
وضو کیا پھر جمعہ کو آیا
اور (خطبہ) سنا اور چپ رہا ،اس کے لیے ان گناہوں کی مغفرت ہو
جائے گی جو اس جمعہ اور دوسرے جمعہ کے درمیان ہوئے ہیں۔ ( مسلم، کتاب
الجمعۃ، باب فضل من استمع وانصت فی الخطبۃ، ص427، حدیث: 857)
جمعہ کی نماز کی
اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ پاک نے بطورِ خاص اس نماز کا
ذکر قراٰن مجید میں فرمایا اور تمام کام کاج چھوڑ کر نمازِ جمعہ کی طرف چلنے کا حکم ارشاد فرمایا۔ لہٰذا کیسی
ہی مصروفیت ہو، تمام کاموں کو چھوڑ کر نمازِ جمعہ کی طرف رخ کرنا لازم ہے اور فارغ شخص تو بدرجہ اولٰی جلد از جلد نمازِ
جمعہ کی تیاری کرے۔ کیونکہ یہ ایسی نماز
ہے جس کو سستی و غفلت کی وجہ سے چھوڑنے پر حدیث پاک میں بہت سخت وعید آئی ہے کہ
فرمانِ مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے :جو شخص تین جمعہ (کی نماز) سستی کے سبب چھوڑے اللہ پاک اس کے دل
پر مہر کر دیا۔(المستدرك، 1/589، حدیث: 1120، دارالمعرفہ بيروت)
اب بھلا وہ دل بھی کیسا دل ہوگا جس پر اللہ پاک مہر کر دے
اور نہ جانے یہ عمل جہنم میں لے جانے کا سبب بن جائے۔ اللہ پاک ہمیں پانچ وقت کی
نماز بالخصوص جمعہ کی نماز پابندی کے ساتھ
باجماعت ادا کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم