جمعۃُ المُبارَک کی فضیلت  کے متعلق اتنی ہی بات کافی ہے اللہ پاک نے جمعہ کے متعلق ایک پوری سورت ’’ سُوْرَۃُ الْجمعہ ’’ نازِل فرمائی ہے جو کہ قراٰنِ کریم کے 28ویں پارے میں جگمگا رہی ہے ۔ سورۃ الجمعہ کی آیت نمبر 9میں ارشاد فرماتا ہے : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ وَ ذَرُوا الْبَیْعَؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۹)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو جب نماز کی اذان ہو جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔(پ28،الجمعۃ:09)

جمعہ المبارک کی ابتدا کب ہوئی؟صدرُ الافاضِل حضرتِ علّامہ مولانا سیِّد محمد نعیم الدّین مراد آبادی عَلَیْہِ رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب ہجرت کر کےمدینۂ طیِّبہ تشریف لائے تو 12 ربیع الاوّل ( 622؁ء) پیر شریف کو چاشت کے وَقت مقامِ قُباء میں اِقامت فرمائی۔ پیر شریف سے منگل، بدھ، جمعرات یہاں قِیام فرمایا اور مسجِد کی بنیاد رکھی۔ روزِجمعہ مدینۂ طیِّبہ کاعَزم فرمایا۔ بنی سالم ابنِ عَوف کے بَطنِ وادی میں جمعہ کا وقت آیا اس جگہ کو لوگوں نے مسجِد بنایا۔ سیّدِعالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے وہاں جمعہ ادا فرمایا اور خطبہ فرمایا۔ (خَزا ئِنُ الْعِرفا ن ص884)اسی جگہ مسجد جمعہ واقع ہے۔

(1)فِرشتے خوش نصیبوں کے نام لکھتے ہیں: فرمان آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : جب جمعہ کا دن آتاہے تو مسجِد کے دروازے پر فِرشتے آ نے والے کو لکھتے ہیں ، جو پہلے آئے اس کو پہلے لکھتے ہیں ، جلدی آنے والا اس شخص کی طرح ہے جو اللہ پاک کی راہ میں ایک اُونٹ صدقہ کرتاہے، اوراس کے بعد آنے والا اس شخص کی طرح ہے جو ایک گائے صدقہ کرتاہے، اس کے بعد والا اس شخص کی مثل ہے جومَینڈھا صدقہ کرے، پھر اِس کی مثل ہے جو مُرغی صدقہ کرے، پھر اس کی مثل ہے جو اَنڈا صدقہ کرے اورجب امام (خطبے کے لیے) بیٹھ جاتاہے تو وہ اعمال ناموں کو لپیٹ لیتے ہیں اورآکر خطبہ سنتے ہیں ۔(صَحیح بُخاری، 1/319،حدیث:929)

مُفسّرِشَہیرحکیمُ الامّت حضرتِ مفتی احمد یا ر خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : بعض عُلَماء نے فرمایا کہ ملائکہ جمعہ کی طُلُوعِ فَجر سے کھڑے ہوتے ہیں ، بعض کے نزدیک آفتاب چمکنے سے، مگر حق یہ ہے کہ سُورج ڈھلنے (یعنی ابتدائے وقتِ ظہر) سے شروع ہوتے ہیں کیو نکہ اس ی وقت سے وقتِ جمعہ شُروع ہوتاہے ، معلوم ہوا کہ وہ فِرِشتے سب آنے والوں کے نام جانتے ہیں ، خیال رہے کہ اگر اوَّلاً سو آدَمی ایک ساتھ مسجِد میں آئیں تو وہ سب اوّل ہیں ۔ (مِراٰۃ المناجیح، 2/335)

(2)غریبوں کا حج:فرمان آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم :اَلْجمعۃُ حَجُّ الْمَسَاکِیْن یعنی جمعہ کی نماز مساکین کا حج ہے۔ اور دوسری روایت میں ہے کہ اَلْجمعۃُحَجُّ الْفُقَرَاء یعنی جمعہ کی نماز غریبوں کا حج ہے۔ (جمع الجوامع لِلسُّیُوطی، 4/84، حدیث:11108، 11109)

(3) جمعہ کیلئے جلدی نِکلنا حج ہے: فرمان آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : بلاشبہ تمہارے لئے ہر جمعہ کے دن میں ایک حج اور ایک عمرہ موجود ہے، لہٰذا جمعہ کی نَماز کیلئے جلدی نکلنا حج ہے اور جمعہ کی نَماز کے بعد عَصر کی نماز کے لئے انتظار کرنا عمرہ ہے۔ (السنن الكبرى للبیہقی، 3/342،حديث: 5950)

(4) ہرجمعہ کو ایک کروڑ44 لاکھ جہنَّم سے آزاد: سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کافرمانِ نَجات نشان ہے: جمعہ کے دن اور رات میں چوبیس گھنٹے ہیں کوئی گھنٹا ایسا نہیں جس میں اللہ پاک جہنَّم سے چھ لاکھ آزاد نہ کرتا ہو، جن پر جہنَّم واجِب ہو گیا تھا۔ (مُسْنَد اَبِی یَعْلٰی، 3/291،حدیث:3421)

(5) دو سو سال کی عبادت کا ثوا ب:فرمان آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم :جو جمعہ کے دن نہائے اس کے گناہ اور خطائیں مٹا دی جاتی ہیں اور جب چلنا شروع کیا تو ہر قدم پر بیس نیکیاں لکھی جاتی ہیں ۔ (المعجمُ الکبیر ، 18/139،حدیث: 292) اور دوسری روایت میں ہے : ہر قدم پر بیس سال کاعمل لکھا جاتا ہے اور جب نَماز سے فارغ ہو تو اس ے دو سو برس کے عمل کا اجر ملتا ہے۔(المعجمُ الْاَ وْسَط ،2/314 ،حدیث: 3397)

جمعہ کی پابندی کا درس:جمعہ کی اتنی فضیلت ہے کہ بندہ مؤمن یہ آرزو کرے کہ روزانہ ہی جمعہ ہو اور جمعہ دوسرے جمعہ تک کے گناہوں کا کفارہ اور اس دن مسلمانوں کا عیدین کی طرح اجتماع ہوتا ہے۔ اس لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ اس دن نماز جمعہ ادا فرمایا کریں کہ یہ گناہ کو بخشوانے اور اللہ پاک کے فضل وکرم حاصل کرنے کا آسان ذریعہ ہے۔