واہ اے عطر ساز مہکنا تیرا

خوبرو ملتے ہیں کپڑوں میں پسینہ تیرا

جمعہ کا ذکر قرآن کریم کی روشنی میں:

یا ایھا الذین آمنو اذا نودی للصلوۃ من یوم الجمعۃ فاسعوا الٰی ذکراللہ وذکروا البیع۔ذلکم خیرلکم ان کنتم تعلمون۔ (پارہ 28، الجمعہ:9)

جمعہ سے مراد:

جمعہ کو جمعہ اس لئے کہتے ہیں کہ اللہ پاک نے اس میں تمام خیر یعنی بھلائی کو جمع فرمایا ہے، چنانچہ جمعہ کے متعلق بہت سے اقوال مروی ہیں، چنانچہ مفسرِ شہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ جمعہ کو جمعہ کہنے کی وجوہات کچھ یوں نقل فرماتے ہیں کہ

٭اس دن تکمیلِ خلق ہوئی۔

٭حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کی مٹی اس دن جمع ہوئی۔

٭اسی دن میں لوگ جمع ہوکر نماز جمعہ ادا کرتے ہیں، اس لئے اس دن کو جمعہ کہتے ہیں۔ (مرآة المنا جیح، جمعہ کا باب،ج2، ص 317، بتغیر)

جمعہ کا شرعی حکم:

جمعہ فرضِ عین ہے اور اس کی فرضیت کے متعلق نمازِ ظہر سے زیادہ تاکید مروی ہے۔ (درِ مختار، تتمہ کتاب الصلوۃ، باب جمعہ3/5)

جمعۃ المبارک کے دن خاص عنایتیں:

ہم کتنے خوش قسمت ہیں کہ ربّ کریم نے اپنے پیارے حبیب صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم کے صدقے ہمیں جمعۃ المبارک کی نعمت سے سرفراز فرمایا، افسوس! ہم نا قدر جمعہ شریف کو بھی عام دنوں کی طرح غفلت میں گزار دیتے ہیں، حالانکہ جمعہ یومِ عید ہے، جمعہ سب دنوں کا سردار ہے، جمعہ کے روزجہنم کی آگ نہیں سلگائی جاتی، جمعہ کی رات دوزخ کے دروازے نہیں کھلتے، جمعہ کے بروزِ قیامت دلہن کی طرح اٹھایا جائے گا، جمعہ کے روز مرنے والا خوش نصیب مسلمان شہید کارتبہ پاتا اور عذابِ قبر سے محفوظ ہو جاتاہے۔

جمعہ کےدن نیکی کا ثواب اور گناہ کا عذاب:

مفسرِشہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:جمعہ کو حج ہو تو اس کا ثواب ستر حج کے برابر ہے، جمعہ کی ایک نیکی کا ثواب ستر گنا ہے، (چونکہ اس کا شرف بہت زیادہ ہے لہذا)جمعہ کے روز گناہ کا عذاب بھی ستر گنا ہے۔ (مرآة المنا جیح، جمعہ کا باب،ج2، ص 320)

فرمانِ تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نبوت صلى اللهُ علیہ و اٰلہ وسلّم :جو روزِ جمعہ یا شبِ جمعہ مرے گا، عذابِ قبر سے بچا لیا جائے گا اور قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس پر شہیدوں کی مہر ہوگی۔ (حلية الاولياء، ج3،ص181، ح 3629)

سرکار نامدار، مدینے کے تاجدار صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم کا فرمان خوشبودار ہے:کہ جمعہ میں ایک ایسی گھڑی ہے کہ اگر کوئی مسلمان اسے پاکر اللہ پاک سے کچھ مانگے تو اللہ پاک اس کو ضرور دے گا۔ (مسلم، کتاب الجمعہ، باب فی اساعۃ التی فی یوم الجمعہ، صفحہ424، حدیث15۔852)

فرمانِ مصطفی صلى اللهُ علیہ و اٰلہ وسلّم :جس نے جمعہ ادا کر لیا اور اس دن روزہ رکھا اور مریض کی عیادت کی اور جنازے کے ساتھ گیا اور نکاح میں حاضر ہوا تو اس کے لئےجنت واجب ہو گئی۔ (معجم کبیر، ج8، ص97، ح7484)

فرمانِ مصطفی صلى اللهُ علیہ و اٰلہ وسلّم :جس نے جمعہ کا روزہ رکھا تو اللہ تبارک و تعالی اسے آخرت کے دس دنوں کے برابر اَجر عطا فرمائے اور وہ ایام (اپنی مقدار میں)ایامِ دنیا کی طرح نہیں ہیں۔ (شعب الایمان، جلد 3، ص393، حدیث3862)

فرمانِ مصطفی صلى اللهُ علیہ و اٰلہ وسلّم :جمعہ کا غسل بال کی جڑوں سے خطائیں کھینچ لیتا ہے۔ (المعجم الکبیر8/256، حدیث7994)

جمعہ نہ پڑھنے، سستی کرنے کے بارے میں وعیدات و دیگر احادیث مبارکہ:

جہاں جمعۃ المبارک کو ادا کرنے کی فضیلتیں، عظمتیں، اجرو ثواب کا ذکر کیا گیا ہے، اسی کے ساتھ نہ پڑھنے پر وعیدات بھی ذکر کی گئی ہیں۔

فرمانِ مصطفی صلى اللهُ علیہ و اٰلہ وسلّم :جو شخص تین جمعہ کی نماز سستی کے سبب چھوڑ دے، اللہ پاک اس کے دل پر مہر لگا دے گا۔ (مستدرک، کتاب الجمعہ، التشدید علی التخلف عن الجمعہ1/589، حدیث1120)

سب سے پہلے جمعہ پڑھنے والے صحابی:

سرکاردوعالم صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم کے حکم سے سب سے پہلے جمعہ حضرت سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے پڑھا۔ (اسلام کی بنیادی باتیں، حصہ 3، صفحہ 145)

اول جائے صلوۃ الجمعہ:

سب سے پہلے نمازِ جمعہ مسجدنبوی نہیں، بلکہ حضرت سیدنا سعد بن خیثمہ انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر میں ادا کی گئی۔ (اسلام کی بنیادی باتیں، حصہ 3، صفحہ 145)

آغاز جمعۃ المبارک:

جمعۃ المبارک کا آغاز سرکار دو عالم صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم کی ہجرت سے پہلے مدینہ شریف میں ہوا۔ (اسلام کی بنیادی باتیں، حصہ 3، صفحہ 145)

پیارے آقا کا پہلا جمعہ:

سرکار مدینہ صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم جب ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو بارہ ربیع الاول پیر شریف کو چاشت کے وقت مقامِ قباء میں امامت فرمائی، پیر، منگل، بدھ اور جمعرات یہاں قیام فرمایا اور ایک مسجد کی بنیاد رکھی تھی، پھرجمعہ کے دن مدینہ شریف روانہ ہوئے، راستے میں بنی سالم ابن عوف بطن وادی میں جمعہ کا وقت ہوا تو اس جگہ کو لوگوں نے مسجد بنایا اور سرکار دوعالم صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم نے وہاں 16 ربیع الاول کو پہلا جمعہ ادا فرمایا۔ (خزائن العرفان، پارہ 28، الجمعۃ، تحت الآیۃ9، حاشیہ نمبر 21)

نبی کریم صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم نے کل کتنے جمعے پڑھے:

سرکار دو عالم صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ میں تقریباً پانچ سو جمعے ادا فرمائے۔ (مرآۃالمناجیح، خطبہ اور نماز2/346 ملخصاً)

غسلِ جمعہ کا آغاز، حکایت:

حضرت سیّدنا عکرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کچھ عراقی لوگ آئے اور بولے:اے ابنِ عباس! کیا آپ جمعہ کے دن کا غسل واجب سمجھتے ہیں؟ فرمایا: نہیں، لیکن یہ بہت پاکی ہے اور غسل کرنے والے کے لئے اچھا ہے اور جو غسل نہ کرے، اس پر ضروری نہیں، میں تمہیں بتاتا ہوں کہ غسل شروع کیسے ہوا؟ لوگ مشقت میں تھے کہ اون پہنتے اور اپنی پیٹھ پر مزدور یاں کرتے تھے، ان کی مسجد تنگ تھی، جس کی چھت نیچے تھی، جو صرف چھیر(خس پوش) تھی، حضور انور صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم ایک گرم دن میں تشریف لائے اور لوگ اسی اُون میں پسینہ پسینہ تھے، ان سے بو پھیل گئی، جس کی وجہ سے بعض نے بعض سے تکلیف پائی، تو جب رسول اللہ صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم نے یہ بو پائی تو فرمایا: اے لوگو! جب یہ دن ہوا کرے تو نہا آیا کرو اور چاہئے کہ ہر ایک اپنا بہترین تیل و خوشبو مَل لیا کرے۔

حضرت سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:پھر اللہ پاک نےمال عطا فرمایا اور لوگوں نے اُون کے علاوہ دیگر اچھے لباس اور کام کاج سے چھوٹ گئے، ان کے مسجد فراخ ہوگئی اور پسینہ سے جو بعض کو بعض سے پہنچتی تھی، وہ جاتی رہی۔ (ابو داؤد، کتاب الطہارہ، باب فی الرخصۃ۔۔ال1/160، الحدیث353)

وضاحت:

مفسرِ شہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے حصے:ہر ایک اپنا بہترین تیل و خوشبو مل لیا کرےکے تحت لکھتے ہیں:تیل سر اور جسم اور خوشبو کپڑوں میں، اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے مجمع میں، مجلسوں میں اچھے کپڑے پہن کر جانا چاہئے، شادی، عرس، تبلیغ کے جلسے، سب میں اس بات کا خیال رکھا جائے، مجلسوں میں ہار پھول ڈالنے کی اصل یہ حدیث ہے۔ (مرآۃالمناجیح1/348)

یہ تسلیم عمدہ ہے خوشبوئےجنت

مجھے کاش مل جائے ان کا پسینہ

نوٹ:

جمعۃ المبارک کی فرضیت کا انکار کرنے والا کافر ہے۔ (درمختار، باب الجمعہ3/5)

جمعۃ المبارک کے دن زینت اختیار کرنا:

جمعہ کے دن زینت اختیار کرنا چاہئے، یعنی لباس و جسم کی صفائی کے ساتھ ساتھ مسواک کرنا چاہئے، خوشبو لگانی چاہئے ناخن ترشوانے چاہئے، حجامت بنوانا چاہئے، چنانچہ حضرت سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سلطانِ دو جہاں، شہنشاہِ کون و مکاں صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم کا فرمان عالیشان ہےکہ جو شخص جمعہ کے دن نہائے اور جس طہارت(یعنی پاکیزگی) کی استطاعت ہو، کرے اور خوشبو لگائے اور کم میں خوشبو ہو سکے، پھر نماز کو نکلے اور دو شخصوں میں جدائی نہ کرے، یعنی دو شخص بیٹھے ہوئے ہوں، ا نہیں ہٹا کر بیچ میں نہ بیٹھے اور جو نماز اس کے لئے لکھی گئی ہے، پڑھے اور امام جب خطبہ پڑھے تو چپ رہے ، اس کے لئے ان گناہوں کی جو اس جمعہ اور دوسرے جمعہ کے درمیان ہیں، مغفرت ہو جائے گی۔ (بخاری، کتاب الجمعہ، باب الدھن للجمعہ: 306)

جمعہ کے 5خصوصی اعمال:

رسول اکرم، شاہ بنی آدم صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم کا فرمان معظم ہے: پانچ چیزیں جو ایک دن میں کرے گا، اللہ پاک اس کو جنتی لکھ دے گا۔

٭ جو مریض کی عیادت کو جائے،٭ نماز جنازہ میں حاضر ہو،٭ روزہ رکھے،٭ نماز جمعہ کو جائے، ٭اور غلام آزاد کرے۔

دعائے خیر:

اللہ پاک میری اس کاوش کو قبول فرمائے اور اس میں جو غلطیاں ہوئی ہیں، معاف فرمائے اور ہمیں اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین