حدیث قدسی میں اللہ پاک کا فرمان ہے :میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتے کرتے اس مقام کو پہنچ جاتا ہے کہ میں اسے محبوب بنا لیتا ہوں۔

(صحیح البخاری،حدیث:6502)

بلاشبہ نوافل کی کثرت بندے کو تقوی کے اعلیٰ مقام پر فائز کر دیتی ہے ۔ معرفت الٰہی وہ بلندی درجات کا سبب بنتی ہیں، نوافل معافی عصیاں و رضائے مولا کا ذریعہ ہیں۔ کچھ احادیث طیبات نفلی روزوں کے فضائل پر زیر قرطاس کرتا ہوں۔

چنانچہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان دل نشین ہے: جو رضائے الہی کی تلاش میں ایک دن کا روزہ رکھتا ہے اللہ پاک اسے جہنم سے اتنا دور کر دیتا ہے جتنا فاصلہ ایک کوّا بچپن سے بوڑھا ہو کر مرنے تک مسلسل اڑتے ہوئے طے کر سکتا ہے۔

(مسند امام احمد 3/619، حدیث:10810)

حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمۃ درج بالا حدیث پاک کی شرح میں فرماتے ہیں کہ کوّے کی طبعی عمر ایک ہزار سال ہے اور یہ بہت تیز اڑتا ہے ، یہاں دوزخ سے انتہائی دوری بتانے کیلئے بطور تمثیل ارشاد ہوا کہ اگر کوّے کا بچہ پیدا ہوتے ہی اڑنا شروع کر دے اور مرتے دم تک برابر اڑتا رہے تو اندازہ لگا لو کہ اپنے گھونسلے سے کتنی دور ہو جائے گا،اللہ پاک اس روزہ دار کو دوزخ سے اتنا دور رکھے گا ۔(مراٰۃ المناجیح 3/203)

جسم کی زکوۃ: نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :ہر چیز کی زکوۃ ہے اور جسم کی زکوۃ روزہ ہے۔(سنن ابن ماجہ ،حدیث:1745)

ہر ماہ تین روزے رکھنے کی فضیلت :محبوب رب العالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :ہر مہینے میں تین دن کے روزے ایسے ہوں جیسے دہر( ہمیشہ )کے روزے۔

(صحیح البخاری،حدیث:1975)

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ہر مہینے تین روزے رکھنا ایسا ہے کہ عمر بھر روزہ دار رہا۔ ان تین روزوں سے مراد یا تو ایام بیض کے روزے ہیں یا بلا تعین کسی بھی تاریخ کے روزے مراد ہیں۔(نزہۃ القاری ،جلد:3،حدیث:1164)

جمعہ کے دن روزے رکھنا :حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جس نے جمعہ کا روزہ رکھا اللہ پاک اسے آخرت کے دس دنوں کے برابر اجر عطا فرمائے گا اور ان کی تعداد ایام دنیا کی طرح نہیں ہے۔(شعب الایمان جلد:3،حدیث:3862)

مگر یاد رہے کہ خصوصیت کے ساتھ تنہا جمعہ کا روزہ رکھنا مکروہ ہے البتہ اگر اس کے ساتھ جمعرات یا ہفتے کا روزہ ملا لیا جائے تو کوئی کراہت نہیں۔(بہار شریعت حصہ 5)

گناہوں کا کفارہ :شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :رجب کے پہلے دن کا روزہ تین سال کا کفارہ ہے اور دوسرے دن کا روزہ دو سال کا اور تیسرے دن کا ایک سال کا کفارہ ہے۔(الجامع الصغیر للسیوطی،حدیث:5051)

یہاں کفارے سے مراد یہ ہے کہ یہ روزے گناہ صغیرہ کی معافی کا ذریعہ بن جاتے ہیں یوں ہی یوم عاشورہ و 15 شعبان المعظم کا روزہ رکھنے اور شش عید کے روزوں کے فضائل پر کثیر نصوص موجود ہیں۔(کفن کی واپسی ص:7)

اللہ کریم ہمیں فرائض کی پابندی اور نوافل کی کثرت کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم