تاجدارِ رسالت،شفیعِ اُمت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ ڈھارس نشان ہے:جس نے ثواب کی امید رکھتے ہوئے ایک نفل روزہ رکھا، اللہ پاک اسے دوزخ سے چالیس سال (کا فاصلہ) دور فرما دے گا۔(کنزالعمال، جلد 8، صفحہ 255، حدیث،24148)

اللہ پاک کے پیارے حبیب، ہم گناہوں کے مریضوں کے طبیب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ رغبت نشان ہے:اگر کسی نے ایک دن نفل روزہ رکھا اور زمین بھر سونا اسے دیا جائے،جب بھی اس کا ثواب پورا نہ ہو گا،اس کا ثواب تو قیامت ہی کے دن ملے گا۔

(المسند ابی یعلی، جلد 5، صفحہ 353، حدیث 6104)

ان احادیثِ مبارکہ میں ایک نفل روزے کی فضیلت کس قدر بیان کی گئی ہے! لہٰذا نفل روزوں کی عادت بنانی چاہئے، تاکہ اس کی عادت سے فرض روزوں میں آسانی ہو اور فرض روزے مسلمان بآسانی رکھ سکیں اور حدیث کا مفہوم ہے:روزہ انسانی شہوت کو کم کرتا ہےلہٰذا نفل روزوں کی عادت بنانی چاہئے،مزید اس کے علاوہ بھی دینی و دنیوی فوائد کثیرہیں،دینی فائدہ یہ ہے کہ ایمان کی حفاظت،جہنم سے نجات اور جنت کا حصول شامل ہیں اور جہاں تک دنیوی فائدے کا تعلق ہے تو دن کے اندر کھانے پینے میں صَرف ہونے والا وقت اور اخراجات کی بچت،پیٹ کی اصلاح اور بہت سارے امراض کی حفاظت کا سامان ہے اور فائدے کی اصل یہ ہے کہ اللہ پاک کی رضا حاصل ہو۔

اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو روزے کی حالت میں مرا، اللہ پاک قیامت تک کے لئے اس کے حساب میں روزے لکھ دے گا۔(الفر دوس بماثورالخطاب، جلد 5، صفحہ 504، حدیث 5557)

سبحان اللہ!خوش نصیب ہے وہ مسلمان جسے روزے کی حالت میں موت آئے، بلکہ کسی بھی نیک کام کے دوران موت آنا نہایت ہی اچھی علامت ہے۔

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے عرض کی، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم !مجھے کوئی عمل بتائیے؟فرمایا:روزے رکھا کرو،کیونکہ اس جیسا کوئی عمل نہیں،میں نے پھر عرض کی:مجھے کوئی عمل بتائیے؟ فرمایا:روزہ رکھا کرو، کیوں کہ اس جیسا کوئی عمل نہیں،میں نے پھر عرض کی:مجھے کوئی عمل بتائیے؟فرمایا:روزہ رکھا کرو،کیوں کہ اس جیسا کوئی عمل نہیں۔

(سنن نسائی، ج4،ص166)

ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے،اللہ پاک کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم چار چیزوں کو نہیں چھوڑتے تھے:1۔ عاشورا، 2۔عشرہ ذوالحجۃ، 3۔ہر مہینے میں تین دن کے روزے، 4۔فجر کے فرض سے پہلے دو رکعتیں(یعنی دو سنتیں)۔(سنن النسائی، ج4، ص220)

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میرے سرتاج، صاحبِ معراج صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ایک مہینے میں ہفتہ، اتوار اور پیر کا جب کہ دوسرے ماہ میں منگل، بدھ اور جمعرات کا روزہ رکھا کرتے تھے۔(سنن ترمذی، ج 2، ص 186، حدیث 746)

سبحان اللہ!حدیثِ مبارکہ میں کس قدر فضیلت بیان کی گئی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا عمل کہ آپ نفل روزوں کی کثرت فرماتے، ہمیں بھی نفل روزوں کی عادت بنانی چاہئے۔

آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:عاشورا کا روزہ رکھو،اس دن انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام روزہ رکھتے تھے۔(جامع الصغیر، ص312، حدیث 5067)

آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:یومِ عاشورا کا روزہ رکھو اور اس میں یہودیوں کی مخالفت کرو،اس سے پہلے یا بعد میں بھی ایک دن کا روزہ رکھو۔(مسند امام احمد، مسند عبد اللہ بن العباس، 1/518، حدیث2154)

یاد رکھئے!جب بھی عاشورا کا روزہ رکھیں، ساتھ ہی نویں یا گیارھویں محرم الحرام کا روزہ بھی رکھ لینا بہتر ہے، اگر کسی نے صرف دس محرم الحرام کا روزہ رکھا، تب بھی جائز ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:مجھے اللہ پاک پر گمان ہے کہ عاشوراکا روزہ ایک سال پہلے کے گناہ مٹا دے گا۔(مسلم شریف، کتاب الصیام، ص454، حدیث 2746)

ان تمام احادیثِ مبارکہ میں نفل روزوں کی ترغیب دلائی گئی ہے اور فضائل بھی بیان کئے گئے ہیں،لہٰذا ہر مسلمان کو ان احادیث پر عمل کرنا چاہئے اور جب روزہ رکھنے میں دین و دنیا دونوں ہی کا فائدہ ہے تو اس میں کثرت یعنی کثرتِ عمل رکھے اور زیادہ سے زیادہ نفل روزے رکھے۔