اللہ پاک ہمارا مالک و خالق ہے۔اس نے ہمیں صرف اپنی عبادت کیلئے پیدا فرمایا ہے مگر ہم نے اس کی بندگی سے غافل ہوکر اچھی تعلیم،وسیع
کاروبار اور آسائش و راحت کواپنی زندگی
کامقصد بنا لیا ہے۔حالانکہ دنیا میں مقررہ مدت تک زندہ رہنے کے بعد ہر ایک کو یہاں سے جاناہے جیساکہ پارہ 18سورۃ المومنون کی آیت نمبر115میں
ارشادِباری ہے:تو کیا یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں بے کار بنایا اور تمہیں ہماری
طرف پھرنا نہیں۔اسی طرح پارہ 27 سورۃ الذّریٰت کی آیت نمبر 56میں ارشاد ہوتاہے:اور
میں نے جن اور آدمی اتنے ہی(اسی لیے)بنائے کہ میری بندگی کریں۔ان آیاتِ مبارکہ سے معلوم ہوا!اللہ
پاک نےجنات او رانسانوں کو اپنی عبادت
کیلئے ہی پیدا فرمایا ہے۔یاد رکھئے!دنیا میں ہم جیسا عمل کریں گے آخرت میں اس کی ویسی
ہی جزا پائیں گے۔اللہ پاک کی عبادت،قرآنِ کریم کی تلاوت اور نیک اعمال کثرت میں زندگی بسر کریں گی تو مرنے کے بعد جنت
اور اس کی ہمیشہ رہنے والی نعمتوں کی حق دار بنیں گی اور اگر زندگی بھر اللہ پاک کی نافرمانی والے
کام کریں گی تو جہنم کے عذاب میں گرفتار ہوں گی۔لہٰذا عقلمندی کا ثبوت دیتے
ہوئے فرض و واجبات کے ساتھ ساتھ اپنے اندر
نفل عبادات کا شوق بھی پیدا کیجئے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:حضور اقدس صلی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلم نے فرمایا:ا للہ پاک نے ارشاد فرمایا: میرا بندہ جن چیزوں کے ذریعے میری قربت چاہتا ہے
ان میں سب سے زیادہ فرائض مجھے محبوب ہیں اور نوافل کے ذریعے بندہ میرے قریب ہوتا
رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس کو محبوب بنا لیتا ہوں۔(بخاری،4/248،حدیث:6502)
حضرت علامہ
مولانا مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ نوافل کے ذریعے قربِ الٰہی حاصل کرنے
کی وضاحت کرتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ(بندہ)فرائض کی کما حَقُہ ادائیگی کے بعد نوافل کی ادائیگی کرتا ہے۔یہ مطلب نہیں کہ فرائض چھوڑے اور
نوافل ادا کرے پھر بھی محبوب ہو۔اس لئے کہ جو فرائض چھوڑے گا فاسق ہوگا وہ محبوب
کیسے ہوگا؟(نزہۃ القاری،5/669)
ہمارےپیارے نبی صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اور آپ کی پیروی
کرنے والےصحابہ وبزرگانِ دین کی زندگی ہمارے لئے بہترین مثال ہے۔اللہ پاک کے یہ مقرب بندے دن بھر حقوق
اللہ اور حقوق العباد سے متعلق فرائض و واجبات کی ادائیگی کے باوجود ساری ساری رات
نفل عبادات میں مشغول رہتے تھے۔ ہمیں بھی ان نیک ہستیوں کی پیروی کرتے ہوئے دن بھر
کام کاج یا دیگر مصروفیات سے وقت نکال کر
فرض نمازیں پابندی سے ادا کرنی چاہئیں اور رات میں نیند کی تھوڑی سی قربانی دے کر
عبادت و تلاوت کا معمول بنانا چاہیے کیونکہ رات میں عبادت کرنا دن کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہے کہ اس وقت کوئی خاص مصروفیت اور شورشرابانہیں ہوتا جس کی وجہ سے عبادت میں دل
لگتا ہے۔رات کے وقت عبادت کرنا اللہ پاک کے نیک بندوں کی پیاری صفت بھی ہے
جیساکہ پارہ 19 سورۃ الفرقان کی آیت نمبر
64 میں ہے:اور وہ جو رات کاٹتے ہیں اپنے رب کے لئے سجدے اور قیام میں۔پارہ 21 سورۂ
سجدہ کی آیت نمبر 16میں ہے: ان کی کروٹیں جدا ہوتی ہیں خوابگاہوں سے اور اپنے رب
کو پکارتے ہیں ڈرتے اور اُمید کرتےاور ہمارے دئیے ہوئے میں سے کچھ خیرات کرتے
ہیں۔ہمیں بھی چاہیے کہ دن ہو یا رات جب بھی فرصت کے لمحات میسر ہوں نفل عبادات کا
اہتمام کریں۔ نفل عبادت سے مراد وہ عبادت ہے جو فرائض و واجبات پر زائد ہو،اس کے
کرنے پر ثواب ملتا ہے اور نہ کرنے پر عذاب
نہیں ہوتا۔جیسے نمازِ تہجد،چاشت،اشراق،نمازِ اوابین،صلوۃ التسبیح،صلوۃ الحاجات
وغیرہ۔نفل نمازوں کے بہت فضائل ہیں ان سے متعلق چند احادیث یہ ہیں:
(1)نمازِ تہجد:
رات میں قیام کو اپنے اوپر لازم کر لو کہ
یہ اگلے نیک لوگوں کا طریقہ ہے اور تمہارے
رب کی طرف قربت کا ذریعہ اور گناہوں کو مٹانے والا اور گناہ سے روکنے والا ہے۔( ترمذی،5/323،حدیث: 3560)(2)نمازِاشراق:جس نے فجر کی نَماز ادا
کی پھر طلوعِ آفتاب تک اللہ پاک کا ذکر کرتا رہا پھر دو یا چار رکعتیں ادا کیں،اس کے
بدن کو جہنم کی آگ نہ چھو سکے گی۔(شعب الایمان،3 / 420،حدیث:3957)(3)نمازِ چاشت:جو چاشت کی دو رکعتیں پابندی سے ادا کرتا ہے اس کے گناہ مُعاف
کر دئیے جاتے ہیں اگرچِہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں۔(ابنِ ماجہ،2/153،حدیث:1382)(4)نمازِ اوابین:
جو مغرب کے بعد چھ رکعتیں اس طرح ادا کرے کہ ان کے درمیان کو ئی بُری بات نہ کہے
تو یہ 6 رکعتیں بارہ سال کی عبادت کے برابر ہوں گی۔( ترمذی،1 /439، حديث:435)
عبادت کے دنیاوی
اور اُخروی فوائد:عبادت کا شوق پیدا کرنے کیلئے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے والدِ گرامی
مولانا نقی علی خان رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے
دنیاوی اور اُخروی کئی فوائد بیان کیے ہیں ان میں کچھ یہ ہیں:(1)جو شخص عبادت
کرتاہے خدا کے ممدو حىن مىں داخل ہوتا ہے کہ خدائے تعالىٰ عابدوں کى مدح و ثنا
کرتا ہے۔(2)اس سے محبت رکھتا ہے۔(3)اس کے سب کام درست کرتا ہے۔(4)اس کے رزق کا
کفىل ہوتا ہے۔(5)اس کى مدد کرتا ہے اور دشمنوں کے شر اور فساد سے محفوظ رکھتا ہے۔(6)خلق
کے دل مىں اس کى محبت پىدا کرتا ہے کہ چھوٹے بڑے امىر غرىب اچھے بُرے ىہاں تک کہ
آسمان وزمین کے وحش وطیر(چرند پرند) اس سے محبت رکھتے
ہیں۔(7)برکتِ عام اس کو عنایت ہوتی ہے یہاں تک کہ لوگ اس کے کپڑوں اور مکان سے
تبرک(حاصل)کرتے ہىں اور
فائدہ اُٹھاتے ہىں۔(8)موت کى سختى سے محفوظ رہتا ہے۔(9)پروردگارِ عالَم اس کو اس
وقت اىمان و معرفت پر ثابت رکھتا ہے اورشىطان کے وسوسے اور اغوا ء(دھوکے)سے بچاتا ہے۔(10)قىامت کے اہوال سے محفوظ رہے گا۔(11)نامۂ
اعمال اُس کا دہنے ہاتھ مىں دىا جائے گا۔(12)پُلِ صراط سے آسانى کے ساتھ گزر جائے
گا۔(13)خدا کے دىدار سے مشرف ہوگا اورىہ نعمت سب نعمتوں سے افضل اور سب کرامتوں سے
اکمل ہے۔(الکلام الاوضح فی تفسیر سورۃ الم نشرح،ص 328۔329ملتقطاً)