پیارے پیارے اسلامی بھائیو! زمانے بھر کا دستور ہے کہ جس کا کھانا اسے کہ گیت گانا ۔ اے عاشقان رسول( صلی اللہ علیہ وسلم)  اللہ کریم نے ہمیں بے شمار نعمتیں عطا فرمائی ہیں اتنی بے شمار کہ اگر ہم اپنی ساری زندگی بھی ان نعمتوں کو شمار کرنے اور ان کا شکر ادا کرنے میں لگا دیں تب بھی یہ نعمتیں شمار نہ کر سکیں گے نہ ہی ان کا شکر ادا کر سکیں گے ۔ اللہ کریم کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا ہم پر لازم ہے اور دنیا میں جو بھی ہم سے حسن سلوک کرے ہم پر احسان کرے ہمیں اس کا بھی شکر ادا کرنا چاہیے ۔

شکر اور ناشکری کی تعریف: شکر کا مطلب ہے کہ کسی کے احسان و نعمت کی وجہ سے زبان، دل یا اعضاء کے ساتھ اس کی تعظیم کی جائے۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عرض کی :یااللہ! میں تیرا شکر کیسے ادا کروں کہ میرا شکر کرنا بھی تو تیری ایک نعمت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: جب تو نے یہ جان لیا کہ ہرنعمت میری طرف سے ہے اور اس پر راضی رہا تو یہ شکر ادا کرنا ہے۔اس کے برعکس کسی کی نعمت و احسان پر دل قول اور فعل سے اس کی تعظیم نہ کرنا ناشکری ہے۔آئے اپنے موضوع کی طرف مزید بڑھتے ہیں ۔

پنجتن پاک کی نسبت سے ناشکری کی مذمت پر پانچ احادیث مبارکہ :-

1) حضرت کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :اللہ تعالیٰ دنیا میں کسی بندے پر انعام کرے پھر وہ اس نعمت کا اللہ تعالیٰ کے لئے شکر ادا کرے اور ا س نعمت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے لئے تواضع کرے تو اللہ تعالیٰ اسے دنیا میں اس نعمت سے نفع دیتا ہے اور اس کی وجہ سے اس کے آخرت میں درجات بلند فرماتا ہے اور جس پر اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انعام فرمایا اور اس نے شکر ادا نہ کیا اور نہ اللہ تعالیٰ کے لئے اس نے تواضع کی تو اللہ تعالیٰ دنیا میں اس نعمت کا نفع اس سے روک لیتا ہے اور اس کے لئے جہنم کا ایک طبق کھول دیتا ہے ،پھر اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو اسے (آخرت میں ) عذاب دے گا یا اس سے در گزر فرمائے گا۔(رسائل ابن ابی الدنیا، التواضع والخمول، 3/ 555، رقم: 93 )

2) … حضرت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جو تھوڑی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کابھی شکر ادا نہیں کرتا اوراللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو بیان کرنا شکر ہے اور انہیں بیان نہ کرنا ناشکری ہے.(شعب الایمان، الثانی والستون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی المکافأۃ بالصنائع، 6 / 516، الحدیث: 9119)

3) حضرت حسن رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں: ، مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو نعمت عطا فرماتا ہے تو ان سے شکر ادا کرنے کا مطالبہ فرماتا ہے، جب وہ شکر کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی نعمت کو زیادہ کرنے پر قادر ہے اور جب وہ نا شکری کریں تو اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دینے پر قادر ہے اور وہ ان کی نعمت کو ان پر عذاب بنا دیتا ہے.(رسائل ابن ابی دنیا، کتاب الشکر للّٰہ عزوجل ، 1 / 484، الحدیث: 60)

4) ابن ماجہ نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت کی، (کہ نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم مکان میں تشریف لائے، روٹی کا ٹکڑ آپڑا ہوا دیکھا، اس کو لے کر پونچھا پھر کھالیا اور فرمایا: ’’عائشہ! اچھی چیز کا احترام کرو کہ یہ چیز (یعنی روٹی) جب کسی قوم سے بھاگی ہے تو لوٹ کر نہیں آئی)۔‘‘ یعنی اگر ناشکری کی وجہ سے کسی قوم سے رزق چلا جاتا ہے تو پھر وآپس نہیں آتا۔ ’’ (سنن ابن ماجہ ‘‘ ،کتاب الأطعمۃ،باب النہی عن إلقاء الطعام، الحدیث: 3353 ،ج 4 ،ص 49)

5) امیرُالمؤمنین حضرت سیِّدُنا علیُّ المرتضیٰ کرم اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا:نعمتوں کے زوال سے بچو کہ جو زائل ہوجائے وہ پھر سے نہیں ملتی۔مزیدفرماتےہیں:جب تمہیں یہاں وہاں سے نعمتیں ملنے لگیں تو ناشکرے بن کر ان کے تسلسل کو خود سے دُور نہ کرو۔(دین و دنیا کی انوکھی باتیں،ص515)

اے عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کی ہر نعمت اپنی جگہ مگر ہمیں اللہ کریم کا سب سے زیادہ اس بات پر شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا نہ صرف اشرف المخلوقات بلکہ مسلمان بنایا نہ صرف مسلمان بلکہ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی بنایا صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اس نے ہمیں صحیح العقیدہ سنی بنایا ۔لہذا ہم پر لازم ہے کہ ہمیں اس کی نعمتوں کا شکر ادا کریں ۔

اور ہمیں چاہیے کہ اگر کوئی ہمارے ساتھ بھلائی کرے تو اس کا بھی دل و جان سے شکر ادا کریں کیوں کہ جو قومیں اپنے محسنین کا شکر ادا کیا کرتی ہیں وہ کامیاب و شاداب ہوا کرتی ہیں۔اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنا اور اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا شکر گزار بننے کی توفیق عطا فرمائے (آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم )