وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍؕ(۳۰) 25، الشوریٰ: 30) ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ تمہارے ہاتھوں کے کمائے ہوئے اعمال کی وجہ سے ہے اور بہت کچھ تو (اللہ) معاف فرما دیتا ہے۔

مسلمانوں پر آنے والی مصیبتوں کا ایک سبب ان کا اللہ پاک کی نافرمانی اور گناہ کرنا ہے۔اگر یہ اللہ پاک کی اطاعت کرتے رہیں تو مصیبتوں سے بچ سکتے ہیں۔گانے باجے،بے حیائی،ظلم و تشدد،فتنہ انگیزی،شراب نوشی،حلال و حرام میں فرق نہ ہونا،گناہ کو معمولی سمجھ کر کر لینا،دوسرے کو مصیبت میں دیکھ کر خوش ہونا وغیرہا انسان کے ہاتھوں ہی کیے ہوں اعمال ہوتے ہیں جو مصیبت کی صورت میں ان پر معلق کر دیے جاتے ہیں۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا:اے لوگوں!تمہارا رب ارشاد فرماتا ہے:اگر میرے بندے میری اطاعت کریں تو میں انہیں رات میں بارش سے سیراب کروں گا ، دن میں ان پر سورج طلوع کروں گا اور انہیں کڑک کی آواز نہ سناؤں گا۔

(مسند امام احمد،3/281،حدیث:8716)

اللہ پاک کے بہت ہی مقرب و عزیز بندے جنہوں نے دن رات ایک کر کے اپنے رب کریم کا قرب حاصل کیا۔دن رات کی آزمائشیں پھر ان پر صبر اور اپنے رب کریم پر پختہ یقین اور ثواب کی امید اللہ اکبر۔جیسا کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور پُر نور ﷺ نے ارشاد فرمایا:بندے کو جو چھوٹی یا بڑی مصیبت پہنچتی ہے وہ کسی گناہ کی وجہ سے پہنچتی ہے اور جو گناہ اللہ معاف فرما دیتا ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔پھر رسولُ اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍؕ(۳۰)25،الشوریٰ:30)(ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ تمہارے ہاتھوں کے کمائے ہوئے اعمال کی وجہ سے ہے اور بہت کچھ تو (اللہ) معاف فرما دیتا ہے۔)(ترمذی،5/169، حدیث:3263)

ادھر ہمیں مصیبت پہنچے تو ہمارا واویلا شروع ہو جاتا ہے۔جب تک 10 لوگوں کو اس تکلیف کا علم نہ ہو جائے تب تک قلب سکون نہیں پاتا،لیکن جب بندہ کو صبر پر ملنے والے ثواب پر پختہ یقین ہو تو مصیبت بڑی ہو یا چھوٹی اس پر صبر کرتا ہے۔تاجدارِ رسالت ﷺ نے ارشاد فرمایا:مومن کو کوئی کانٹا نہیں چبھتا یا اس سے زیادہ کوئی تکلیف نہیں ہوتی مگر اللہ پاک اس سے اس کا ایک درجہ بلند کر دیتا ہے یا اس کی بنا پر اس کا ایک گناہ مٹا دیتا ہے۔(مسلم، ص 1067،حدیث:6562)

مسائل کے حل اور مصائب کو رفع کرنے کے سلسلہ میں شریعت نے تین کام کرنے کی ترغیب دی ہے جو غم کو ہلکا کرنے اور دل کی تسلی میں معاون و مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ایک یہ کہ صبر کیا جائے ،دوسرا صلوۃ الحاجت ادا کی جائے،تیسرا تمام آداب کی رعایت رکھتے ہوئے خوب عاجزی اور انکساری سے دعا مانگی جائے۔ پھر بھی اگر مصیبت دور نہ ہو تو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اللہ پاک نے اس کا اجر آخرت کے لئے ذخیرہ کر لیا ہے یا چھوٹی مصیبت دے کر بڑی مصیبت سے بچا لیا ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن جب مصیبت زدہ لوگوں کو ثواب دیا جائے گا تو آرام و سکون والے تمنا کریں گے:کاش!دنیا میں ان کی کھالیں قینچیوں سے کاٹ دی گئی ہوتیں۔(ترمذی،4 /180،حدیث: 2410)

حضرت ابی بن کعب نے فرمایا :بندۂ مؤمن کو جب کوئی مصیبت پہنچتی ہے اور وہ اس پر صبر کرتا ہے تو وہ اللہ پاک سے اس حال میں ملے گا کہ اس پر کوئی گناہ نہ ہوگا۔(الزهد لہناد،1/235،حديث :397)اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں مصیبت پر صبر کرنے والے کی توفیق عطا فرمائےاور اپنے صابر عبادت گزار بندوں میں شامل فرمالے۔آمین