اہلِ علم اور دین داروں کا کہنا ہے کہ مصیبتیں خدا کے حکم سے بہت سی حکمتوں کے پیشِ نظر آتی ہیں۔چنانچہ

1. ایک حکمت مصیبتوں میں لوگوں کا امتحان مقصود ہوتا ہے کہ صبر کرتے ہیں یا بے صبری۔

2. ایک حکمت نیک بندوں کے کردار و عمل کو سامنے لانا ہوتا ہے تاکہ عام لوگ ان کے حسنِ عمل کی پیروی کریں۔

3. ایک حکمت نیک بندوں کے مراتب و درجات کی بلندی ہوتی ہے۔

4. ایک حکمت گناہگاروں کو تنبیہ اور نصیحت ہوتی ہے کہ وہ گناہوں سے باز آ جائیں اور زندگی کی مہلت سے فائدہ اٹھائیں۔

5. ایک حکمت گناہوں کی سزا ہے اور ان گناہوں میں سب سے بڑھ کر بے حیائی ، بدکاری اور بے شرمی ہے۔

دوسری طرف آزاد خیال ، دین بیزار ،مغربی فلسفے کے اسیر اور خود کو عقلِ کُل سمجھنے والے لوگ ہوتے ہیں جو اپنے قلموں کو تیر بنا کر اہلِ ایمان کے دلوں کو چھلنی کرنے اور مسلمانوں کے دین و ایمان کا شکار کرنے کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں۔طرح طرح سے ان باتوں کا مذاق اڑانے ، عذابِ الٰہی پر مزاحیہ جملے کسنے کے لئے کمر کَس لیتے ہیں۔بہرحال مسلمان کی حیثیت سے ہم مسلمانوں کی تسلی کے لئے مسلمانوں کے قرآن اور احادیث سے دلائل پیش کرتے ہیں کہ مصیبتوں کے اسباب کیا ہوتے ہیں:

بعض مصیبتیں بعض وجوہات کی بنا پر بھی آتی ہیں اور یہ وجوہات بھی لوحِ محفوظ میں لکھی ہوئی ہیں،ان وجوہات میں سے ایک وجہ گناہ کرنا ہے۔چنانچہ ارشادِ باری ہے:وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍؕ(۳۰)25،الشوریٰ:30)ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ تمہارے ہاتھوں کے کمائے ہوئے اعمال کی وجہ سے ہے اور بہت کچھ تو (اللہ) معاف فرما دیتا ہے۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں پر آنے والی مصیبتوں کا ایک سبب ان کا اللہ پاک کی نافرمانی اور گناہ کرنا ہے۔اگر یہ اللہ پاک کی اطاعت کرتے رہیں تو مصیبتوں سے بچ سکتے ہیں۔

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:بندے کو جو چھوٹی یا بڑی مصیبت پہنچتی ہے وہ کسی گناہ کی وجہ سے پہنچتی ہے اور جو گناہ اللہ پاک معاف فرما دیتا ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔( ترمذی ،5/169 ، حدیث:3263)

مصیبتوں کے ذریعے درجات میں بلندی :

دنیا میں جو تکلیفیں اور مصیبتیں مومنین کو پہنچتی ہیں اکثر اُن کا سبب ان کے گناہ ہوتے ہیں۔اُن تکلیفوں کو اللہ پاک اُن کے گناہوں کا کفارہ کردیتا ہے اور کبھی مومن کی تکلیف اس کے درجات کی بلندی کے لئے ہوتی ہے۔جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت ﷺ نے ارشاد فرمایا:مومن کو کوئی کانٹا نہیں چبھتا یا اس سے زیادہ کوئی تکلیف نہیں ہوتی مگر اللہ پاک اس سے اس کا ایک درجہ بلند کر دیتا ہے یا اس کی بنا پر اس کا ایک گناہ مٹا دیتا ہے۔(مسلم، ص 1067،حدیث:6562)

امام محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ احیاء العلوم میں فرماتے ہیں:حضرت فتح موصلی رحمۃ اللہِ علیہ کی زوجہ پھسل گئیں تو ان کا ناخن ٹوٹ گیا،اس پر وہ ہنس پڑیں ،ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ کو درد نہیں ہو رہا؟انہوں نے فرمایا:اس کے ثواب کی لذت نے میرے دل سے درد کی تلخی کو زائل کر دیا ہے۔(احیاء العلوم، 4/90)

جب مصیبت پہنچے تو اسی وقت صبر و اِستِقلال سے کام لیا جائے، جیسا کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا:صبر صدمہ کی ابتداء میں ہوتاہے۔

(بخاری،1/433، حدیث:1283)

صبر کی سب سے بہترین صورت یہ ہے کہ مصیبت زدہ پر مصیبت کے آثار ظاہر نہ ہوں جیسا کہ مسلم شریف میں ہے کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:حضرت ام سُلَیم رضی اللہ عنہا کے بطن سے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کا ایک لڑکا فوت ہو گیا۔حضرت ام سُلَیم رضی اللہ عنہا نے اپنے گھر والوں سے کہا:حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کو ان کے بیٹے کے انتقال کی خبر اس وقت تک نہ دینا جب تک میں خود انہیں نہ بتا دوں۔جب حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ آئے تو حضرت ام سُلَیم رضی اللہ عنہا نے انہیں شام کا کھانا پیش کیا،انہوں نے کھانا کھایا اور پانی پیا،پھر حضرت ام سُلَیم رضی اللہ عنہا نے پہلے کی بہ نسبت زیادہ اچھا بناؤ سنگھار کیا۔حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے ان سے ازدواجی عمل کیا۔جب حضرت ام سُلَیم رضی اللہ عنہا نے دیکھا کہ وہ سیر ہو گئے اور اپنی فطری خواہش بھی پوری کر لی ہے تو پھر انہوں نے کہا:اے ابو طلحہ! یہ بتائیں کہ اگر کچھ لوگ کسی کو عاریت کے طور پر کوئی چیز دیں پھر وہ اپنی چیز واپس لے لیں تو کیا وہ ان کو منع کر سکتے ہیں ؟ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا :نہیں۔حضرت ام سُلَیم رضی اللہ عنہا نے کہا:تو پھر آپ اپنے بیٹے کے متعلق یہی گمان کر لیں (کہ وہ ہمارے پاس اللہ پاک کی امانت تھا جو اس نے واپس لے لی یعنی اس کا انتقال ہو چکا ہے۔) (مسلم، ص1333،حدیث:2144)

حضرت مطرف رحمۃ اللہ علیہ کا بیٹا فوت ہوگیا۔لوگوں نے انہیں بڑا خوش و خرم دیکھا تو کہا کہ کیا بات ہے کہ آپ غمزدہ ہونے کی بجائے خوش نظر آرہے ہیں؟ فرمایا:جب مجھے اس صدمے پر صبر کی وجہ سے اللہ پاک کی طرف سے درود و رحمت اور ہدایت کی بشارت ہے تو میں خوش ہوں یا غمگین؟

(مختصرمنہاج القاصدین، ص277۲۷۷)

اللہ پاک قرآنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے:الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌۙ-قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ(۱۵۶) (پ2،ا لبقرۃ:156)ترجمہ:جب ان پر کوئی مصیبت پڑے تو کہیں ہم اللہ کے مال ہیں اور ہم کو اسی کی طرف پھرنا۔

اس آیت میں یہ بتایاگیا کہ صبر کرنے والے وہ لوگ ہیں کہ جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں:ہم اللہ ہی کے مملوک اور اسی کے بندے ہیں وہ ہمارے ساتھ جو چاہے کرے اور آخرت میں ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔(تفسیر جلالین، ص22) کثیر احادیث میں مسلمانوں پر مصیبت آنے کا جو ثواب بیان کیا گیا ہے ان میں سے چند احادیث درج ذیل ہیں:

1۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک جس سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے مصیبت میں مبتلا فرما دیتا ہے۔( بخاری 4/4، حدیث 5645)

2۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:مسلمان مرد و عورت کے جان و مال اور اولاد میں ہمیشہ مصیبت رہتی ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ سے اس حال میں ملتا ہےکہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔(ترمذی ، 4 / 179، حدیث:2407)

3۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور پر نور ﷺ نے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن جب مصیبت زدہ لوگوں کو ثواب دیا جائے گا تو آرام و سکون والے تمنا کریں گے:کاش! دنیا میں ان کی کھالیں قینچیوں سے کاٹ دی گئی ہوتیں۔(ترمذی ،4/180،حدیث:2410)

یاد رہے! بندے کو پہنچنے والی ہر مصیبت ا س کی تقدیر میں لکھی ہوئی ہے۔ ہر مصیبت اللہ پاک کے حکم سے ہی پہنچتی ہے جیسا کہ ایک اور مقام پر اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:مَاۤ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِؕ-(پ28،التغابن:10)ترجمۂ کنزُالعِرفان:ہر مصیبت اللہ کے حکم سے ہی پہنچتی ہے۔

مصیبت آنے پر کون سی دعا پڑھنی چاہیے ؟

1۔ایک مرتبہ نبیِ اکرم ﷺ کا چراغ بجھ گیا تو آپ نے اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَپڑھا۔عرض کی گئی:کیا یہ بھی مصیبت ہے ؟ ارشاد فرمایا:ہاں ! اور ہر وہ چیزجو مومن کو اَذِیَّت دے وہ اس کے لئے مصیبت ہے اور اس پر اجر ہے۔(تفسیردر منثور،1 /380)

2۔ایک اور حدیث شریف میں ہے:مصیبت کے وقت اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَپڑھنا رحمت ِالٰہی کا سبب ہوتا ہے۔(کنز العمال،2/122، الجزء الثالث، حدیث:6646)

لہٰذا جس پر کوئی مصیبت آئے تواسے چاہئے کہ وہ اس بات پر یقین رکھے کہ یہ مصیبت ا س کے نصیب میں لکھی ہوئی تھی اور ا س بات پر غور کرے کہ کہیں اس سے کوئی ایسا گناہ صادر نہ ہو ا ہو جس کے نتیجے میں ا س پر یہ مصیبت آئی!نیزاللہ پاک سے یہ امید رکھے کہ وہ اس مصیبت کے سبب اس کے گناہ مٹا دے اور اس کے درجات بلند فرما دے۔ایسا کرنے سے ذہن کو سکون نصیب ہو گا،دل کو تسلی حاصل ہو گی اور مصیبت پر صبر کرنا بھی آسان ہو جائے گا۔اللہ پاک عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین