مصیبتوں کے اسباب پر جب قرآن و سنت کی روشنی میں غور کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہےکہ  مختلف لوگوں پر آنے والی مصیبتوں کے مختلف اسباب ہوتے ہیں۔ہمارے معاشرے کے مختلف لوگ مختلف قسم کی مصیبتوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔مثلاً

1-کچھ نیک لوگوں کو اللہ پاک مصیبت میں مبتلا فرما کر اُنہیں اپنا قُرب نصیب فرماتا ہے۔نیکوکاروں کو لوگ مصیبت میں مبتلا دیکھ کر دُکھ اور غم کی کیفیات میں مبتلا ہو جاتے ان کے لئے اللہ پاک سے رحمت کے طلبگار بن جاتے ہیں۔

2 - کچھ گناہگاروں کو اللہ پاک دنیا میں ہی اُن کے گناہوں کے سبب مصیبت میں مبتلا کر کے اُن کے گناہ بخش دیتا ہے۔گناہگاروں کو لوگ مصیبت میں دیکھ کر اُن سے عبرت حاصل کرتے ہیں۔مصیبتوں کے اَسباب پر غور کیا جائے تو مندرجہ ذیل وجوہات سامنے آتی ہیں:

01:پارہ2، سورۃالبقرہ، آیت نمبر 155 میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْ عِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِؕ-وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَۙ(۱۵۵)(پ2،البقرۃ: 155) ترجمۂ کنز العرفان:اور ہم ضرور تمہیں کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دو۔

تفسیر صراط الجنان میں اس آیت کی تفسیر کے تحت لکھا ہے:آزمائش سے فرمانبردار اور نافرمان کے حال کا ظاہر کرنا مراد ہے۔امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے بقول خوف سے اللہ پاک کا ڈر،بھوک سے رمضان کے روزے، مالوں کی کمی سے زکوٰۃ و صدقات دینا، جانوں کی کمی سے امراض کے ذریعہ اموات ہونا، پھلوں کی کمی سے اولاد کی موت مراد ہے کیونکہ اولاد دل کا پھل ہوتی ہے۔(تفسیر صراط الجنان،1/250)حدیث میں اولاد کو دل کا پھل کہا گیا ہے۔(ترمذی،2/313،حدیث:1023)

02:قرآنِ کریم کے پارہ25،سورۃالزخرف، آیت نمبر 48میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ اَخَذْنٰهُمْ بِالْعَذَابِ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ(۴۸)ترجمہ کنزالایمان:اور ہم نے اُنہیں مصیبت میں گرفتار کیا کہ وہ باز آئیں۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے:یعنی جب فرعون اور اُس کی قوم نے سرکشی کی تو ہم نے اُنہیں مصیبت میں گرفتار کیاتاکہ وہ اپنی حرکتوں سے باز آجائیں اور کُفر چھوڑ کر ایمان کو اختیار کر لیں۔یہ عذاب قحط سالی ،طوفان اور ٹڈی وغیرہ سے کئے گئے۔(تفسیر صراط الجنان،9/140)

03: قرآنِ کریم کے پارہ25،سورۃ الشوریٰ، آیت نمبر30 میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍؕ(۳۰)25،الشوریٰ:30)ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ تمہارے ہاتھوں کے کمائے ہوئے اعمال کی وجہ سے ہے اور بہت کچھ تو (اللہ) معاف فرما دیتا ہے۔

تفسیر صراط الجنان : اس آیت میں ان مُکَلَّف مومنین سے خطاب ہے جن سے گناہ سرزد ہوتے ہیں اور مراد یہ ہے کہ دنیا میں جو تکلیفیں اور مصیبتیں مومنین کو پہنچتی ہیں اکثراُن کا سبب ان کے گناہ ہوتے ہیں ،اُن تکلیفوں کو اللہ اُن کے گناہوں کا کفارہ کردیتا ہے اور کبھی مومن کی تکلیف اس کے درجات کی بلندی کے لئے ہوتی ہے۔(تفسیر صراط الجنان،9/67)

04:قرآنِ کریم کے پارہ27،سورۃ الحدید، آیت نمبر22میں اللہ پاک فرماتاہے:مَاۤ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَةٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ(پ27،الحدید:22)ترجمہ کنزالایمان: نہیں پہنچتی کوئی مصیبت زمین میں اور نہ تمہاری جانوں میں مگر وہ ایک کتاب میں ہے۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے:اس آیت میں اللہ پاک نے اپنی قضاء اور تقدیر کا بیان فرمایا ہے کہ اے لوگو! زمین میں قحط کی، بارش رک جانے کی، پیداوار نہ ہونے کی ،پھلوں کی کمی کی اور کھیتیوں کے تباہ ہونے کی ،اسی طرح تمہاری جانوں میں بیماریوں کی اور اولاد کے غموں کی جو مصیبت تمہیں پہنچتی ہے وہ ہمارے اسے (یعنی زمین کو یا جانوں کو یا مصیبت کو)پیدا کرنے سے پہلے ہی ہماری ایک کتاب لوحِ محفوظ میں لکھی ہوئی ہوتی ہے اور انہیں لوحِ محفوظ میں لکھ دینا ہمارے لئے آسان ہے۔( تفسیر نسفی،ص1211 )(تفسیر خازن،4 /231 ، ملتقطاً)

مَاۤ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَةٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَهَاؕ-(پ27،الحدید:22) ترجمۂ کنزُالعِرفان:زمین میں اور تمہاری جانوں میں جو مصیبت پہنچتی ہے وہ ہمارے اسے پیدا کرنے سے پہلے (ہی) ایک کتاب میں (لکھی ہوئی)ہے۔

مصیبتیں آنے کے اَسبَاب پر چند فرامینِ مصطفےٰ ﷺ ملاحظہ فرمائیے:

01: حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:بندے کو جو چھوٹی یا بڑی مصیبت پہنچتی ہے وہ کسی گناہ کی وجہ سے پہنچتی ہے اور جو گناہ اللہ پاک معاف فرما دیتا ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔( ترمذی ،5/169 ، حدیث:3263)

02: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک جس سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے مصیبت میں مبتلا فرما دیتا ہے۔( بخاری، 4/4، حدیث: 5645)

اِن آیاتِ مبارکہ اور احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ مصیبتیں فقط گناہوں کے سبب نہیں آتی۔بلکہ اللہ پاک کچھ لوگوں کو اپنے قریب کرنے اور اپنے رحمت کے سائے میں کرنے کے لئے مصیبتوں میں مبتلا کرتا ہے۔لہٰذا ہر ایک کو چاہیےکہ جب بھی کوئی مصیبت، مشکل پیش آئے۔تو صبر کا دامن مضبوطی سے تھام لےکہ دنیا کی مصیبتیں اُخروی مصیبتوں کے سامنے کچھ بھی نہیں۔رب سے شکوہ و شکایت کرنے کے بجائے اللہ پاک کا شکر ادا کریں کہ جس حال میں رب رکھے وہ حال اچھا ہے ۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ہر حال میں شکر کرنے اورمصیبتوں کا صبر و تحمل سے سامنا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین